Baseerat-e-Quran - An-Noor : 4
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ
وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن عورتیں ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا : پھر وہ نہ لائیں بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاجْلِدُوْهُمْ : تو تم انہیں کوڑے مارو ثَمٰنِيْنَ : اسی جَلْدَةً : کوڑے وَّلَا تَقْبَلُوْا : اور تم نہ قبول کرو لَهُمْ : ان کی شَهَادَةً : گواہی اَبَدًا : کبھی وَاُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور جو لوگ تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں کو پھر وہ اس پر گواہ نہ چار لاسکیں، تو انکو تم لوگ اسی کوڑے مارو، اور ان کی کوئی گواہی بھی کبھی قبول مت کرو، اور یہی لوگ ہیں بدکار
لغات القرآن : آیت نمبر 4 تا 10 : یرمون (تہمت لگاتے ہیں۔ الزام لگاتے ہیں) ‘ شھدائ (شھید) گواہ ‘ اربع (چار) ‘ لعنۃ ( پھٹکار۔ اللہ کی رحمت سے دوری) ‘ یدرئوا (دور کرتا ہے۔ ہٹادیتا ہے) ‘ فضل اللہ (اللہ کا فضل و کرم) ‘ تو اب (بہت توبہ قبول کرنے والا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 4 تا 10 : دین اسلام ایک ایسے پاکیزہ ‘ صاف ستھرے اور صالح معاشرہ کا تصور دیتا ہے جس میں ہر شخص ایک دوسرے پر اعتماد اور آپس کی عزت و آبرہ کا محافظ ہو۔ کوئی کسی پر بےبنیاد الزام لگا کر اپنی آخرت کو اور اسلامی معاشرہ کے سکون کو برباد نہ کرے اور روحانی ‘ اخلاقی ‘ اور جسمانی اعتبار سے وہ ایک مضبوط ترین معاشرہ بن جائے۔ اگر کوئی شخص کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرتا ہے یعنی جھوٹا الزام لگاتا ہے اور وہ اپنے کہے ہوئے الفاظ پر گواہ پیش نہیں کرتا تو جھوٹی بات اور الزام لگانے پر اس کو بدترین سزادی جائے گی یعنی اس کو اسی (80) کوڑے مارے جائیں گے اور وہ کبھی کسی عدالت میں گواہی دینے کے قابل نہ رہے گا۔ سورۃ النور کی ابتدائی آیات میں ان ہی احکامات کو بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص کی عزت و آبرو بھی محفوظ ہوجائے اور اسلامی معاشرہ کی روح بھی برقرار رہے۔ ناجائز جنسی تعلق (زناض کی سزا بیان کرنے کے بعد اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ایک اور حکم ارشاد فرمایا ہے جس کے ذریعہ تنہا شوہر یا تنہا بیوی کی گواہی بھی قبول کی جاسکتی ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی شوہر نے اپنی کھلی آنکھوں سے بیوی کو عین حالت مباشرت میں دیکھا اور اس کے سوا کوئی دوسرا گواہ نہیں ہے تو اس شوہر کی گواہی پر فیصلہ ” لعان “ کے ذریعہ ہوگا۔ لعان کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر کسی اسلامی عدالت سے رجوع کرکے اس بات پر اپنی گواہی دے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو فلاں شخص سے عین حالت مباشرت میں خود دیکھا ہے۔ اسلامی عدالت کا کوئی قاضی اس سے کہے گا کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ قسم کھا کر یہ کے کہ اگر یہ سب کچھ کہنے میں جھوٹا ہوں تو میرے اوپر اللہ کی لعنت (اللہ کا غیض و غضب نازل) ہو۔ الزام لگانے والا شوہر اگر الزام لگانے کے بعد قسم کھانے سے انکار کر دے تو اس کو قید کرلیا جائے گا ۔ اگر اس نے قسم کھانے سے مسلسل انکار کیا تو اس پر حد قذف جاری کی جائے گی یعنی اسی کو ڑے مارے جائیں گے اور ہمیشہ کے لئے اس کی گواہی کسی عدالت یا معاملہ میں قبول نہ کی جائے گی۔ اگر شوہر قسم کھالے گا تو اس عورت سے کہا جائے گا کہ وہ بھی شریعت کے احکام کے مطابق چار قسمیں کھا کر پانچویں مرتبہ اپنے اوپر لعنت بھیجے۔ اگر وہ عورت قسم کھانے سے انکار کرے تو اسکو اس وقت تک قید میں رکھا جائے گا جب تک وہ قسم نہ کھالے۔ اگر شوہر کے قسم کھانے کے بعد وہ خاموش رہتی ہے او کسی طرح جواب نہیں دیتی اور قسم بھی نہیں کھاتی تو عدالت کے فیصلے کے بعد اس پر شرعی حد جاری کی جائے گی۔ اگر شوہر کے قسمیں کھانے کے بعد اس کی بیوی بھی قسمیں کھا کر پانچویں مرتبہ لعان کرے تو شوہر کو چاہیے کہ وہ اس کو اسی وقت طلاق دیدے۔ اگر شوہر طلاق نہیں دے گا تو قاضی عدالت دونوں میں جدائی کرادے گا اور یہ جدائی کرانا طلاق کے قائم مقام ہوگی۔ طلاق یا جدائی کے بعد عورت اپنی عدت گذارے گی۔ عدت کے بعد وہ جہاں چاہے اپنا نکاح کرسکتی ہے اگر دوسرے شوہر سے بھی اس کو طلاق مل جائے تب بھی یہ عورت پہلے شوہر سے نکاح نہیں کرسکتی کیونکہ اب یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے قیامت تک حرام ہیں۔ جس طرح مردوں کے لئے احکامات ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہیں یعنی اگر کوئی عورت اپنے شوہر کو عین حالت مباشرت میں دیکھے تو وہ بھی عدالت سے رجوع کرسکتی ہے اور اس کا فیصلہ بھی اسی طرح ہوگا۔ جس طرح مرد کے الزام لگانے کے بعد ہوا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کو ہر طرح کی گندگیوں اور بےبنیاد الزامات سے پاک و صاف رکھنا ضروری ہے تاکہ باہمی اعتماد سے ایک روحانی اور اجتماعی معاشرہ پیدا ہو۔ خاص طور پر میاں بیوی کا معاملہ اور رشتہ تو نہایت نازک ہے کیونکہ اگر میاں بیوی کے رشتہ میں دراڑ پڑجائے اور باہمی اعتماد اٹھ جائے تو پھر ایسی شک و شبہ بھری زندگی گذارنے سے تو بہتر یہ ہے کہ اس شادی کے بندھن کو ہمیشہ کے لئے توڑ دیا جائے۔ اسی طرح شریعت کسی شخص کو اس بات کی کھلی چھٹی نہیں دیتی کہ وہ جب چاہے جس پر چاہ بےبنیاد اور گھناونا الزام لگا دے اور اس پر کوئی شہادت و گواہی بھی پیش نہ کرے۔ شریعت نے جتنی سخت زا اس ناجائز فعل کی رکھی ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینے والوں کو بھی کڑی سزا دی ہے تاکہ کوئی شخص کسی کی عزت و آبرو پر انگلی اٹھاتے وقت سیکڑوں مرتبہ سوچ لے۔ آخر میں فرمایا کہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے لعان کا راستہ بتا دیا کیونکہ جب میاں بیوی اعتماد کھوچکے ہیں تو ان کے ایسے ازدواجی تعلق کو ختم کردینا زیادہ بہتر ہے جس میں دن رات ایک دوسرے کے ہر عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ لعان کے سلسلہ میں چند ضروری مسال بھی پیش نظر رکھیئے۔ لعان سے پہلے سنت طریقہ یہ ہے کہ لعان جو ایک سخت معاملہ ہے اس کے الفاظ ادا کرنے سے پہلے عورت اور مرد دونوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور سمجھایا جائے گا تاکہ وہ اپنی قسم سے باز آجائیں۔ لعان کے بعد اگر عورت کو حمل رہ جاتا ہے تو حمل کی نسبت باپ کی طرف نہیں بلکہ ماں کی طرف کی جائے گی۔ لیکن کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس لڑکے کو ” ولد ا لزنا “ کہا جائے یا ماں کو زانیہ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ سے پکارا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے نہایت وضاحت سے فرمادیا ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیان لعان ہوجائے (یعنی باہمی قسمیں کھا لیں تو) ان دونوں کو ہمیشہ کے لئے جداکردیاجائے گا اور اب وہ کبھی نکاح میں جمع نہیں ہو سکتے۔ لعان کے بعد یہ عورت اس مرد سے الگ ہو کر عدت کے فیصلے کے بعد کسی سے بھی نکاح کرسکتی ہے لیکن وہ اپنے پہلے شوہر کی طرف رجوع نہیں کرسکتی کیونکہ اب یہ قیامت تک ایک دوسرے کے لئے حرام ہوچکے ہیں۔ اگر کسی نے لعان میں جھوٹی قسم کھائی تو وہ دنیاوی سزا سے بچ جائے گا لیکن قیامت میں اللہ کے عذاب سے بچنا ناممکن ہوگا۔ ۔
Top