Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنا لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارے گئے عَلَيْنَا : ہم پر الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ نَرٰي : یا ہم دیکھ لیتے رَبَّنَا : اپنا رب لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا : تحقیق انہوں نے بڑا کیا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں وَعَتَوْ : اور انہوں نے سرکشی کی عُتُوًّا كَبِيْرًا : بڑی سرکشی
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے انہوں نے کہا ہمارے اوپر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے جاتے ؟ یا ہم اپنے رب کو (کھلی آنکھوں سے) کیوں نہیں دیکھ سکتے ؟ بیشک انہیں اپنے بارے میں بڑا گھمنڈ ہے اور شرارت میں وہ بہت سرچڑھ گئے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 21 تا 29 : (لایرجعون) وہ امید نہیں رکھتے ہیں ‘(لقائ) ملاقات ‘(عتو کبیر) بہت زیادہ۔ حد سے زیادہ بڑھنا ‘ (لا بشری) خوشخبری نہیں ہے ‘ (حجر) کوئی روک ۔ کوئی آڑ ‘( محجور) آڑ کھڑ کردی گئی ‘ (قدمنا) ہم آگے آئے ‘ (ھبائ) وہ ذرات جو سورج چمکنے سے نظر آتے ہیں ‘( منثور) اڑایا ہوا۔ پھیلا ہوا ‘(مستقر) ٹھکانا ‘(مقیل) آرام کی جگہ ‘ (تشقق) پھٹ جائے گی ‘ (الغمام) بادل ‘(عسیر) سخت۔ مشکل ‘(یعض) کاٹے گا ‘ (یلیتنی) ‘ اے کاش کہ میں ‘(یویلتی) ہائے میری بدنصیبی ‘ خلیل (دوست) (اضلنی) مجھے بہکادیا ‘ (خذول) دغا باز۔ چھوڑ جانے والا ‘ تشریح آیت نمبر 21 تا 29 : جو لوگ اللہ پر ‘ آخرت اور اس کے رسول پر ایمان و یقین رکھتے ہیں انہیں کسی محسوس دلیل اور معجزے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جن لوگوں کو محض باتیں بنانا اور عمل سے فرار اختیار کرنا ہے وہ طرح طرح کی نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ان کی غیر سنجیدگی اور بےعقلی کی انتہا یہ مطالبہ ہے کہ ہم رسولوں کو مان تو لیں مگر اس کی شرط یہ ہے کہ یا تو فرشتے خود آکر ہمیں بتائیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ یا خود اللہ تعالیٰ ہی آکر اس کی تصدیق کردیں تو ہم ماننے کے لئے تیار ہیں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے یعنی وہ اپنے تکبر ‘ غرور اور بڑائی میں اس قدر ڈوب چکی ہیں کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ جب اللہ کے فرشتے اور خود اللہ رب العالمین ان کے سامنے ہوں گے تو ان مجرمین کے لئے وہ کوئی خوش خبری کا دن نہ ہوگا بلکہ ان کو جب سامنے سے آتا ہوا عذاب اور اس کی ہولناکی نظر آئے گی تو وہ چلا اٹھیں گے کہ اے ہمارے رب ہم سے خطا ہوگئی ہے اور وہ چلا چلا کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے اور اس کے درمیان کوئی پناہ کی جگہ بنادیجئے جس میں ہم چھپ سکیں۔ لیکن اس دن یہ حال ہوگا۔ کہ لوگوں کے اعمال بھی اڑتا ہوا غبار بن جائیں گے اور اہل جنت بہترین ٹھکانوں اور آرام گاہوں میں عیش و آرام کررہے ہوں گے۔ اس دن آسمان پھٹ کر ایک رقیق بادل کی شکل اختیار کرلے گا۔ جس کے چاروں طرف فرشتے ہوں گے۔ یہ بادل ایک سائے کی طرح آسمان سے آئے گا جس میں اللہ کی تجلیات ہوں گی۔ میدان حشر قائم ہوگا۔ اور ہر شخص کو اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا ۔ اس وقت کفارومشرکین اور گناہ گاروں کی ساری خوش گمانیاں دور جائیں گی اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حقیقی بادشاہت و سلطنت صرف اللہ کی ہے۔ یہ دن ظالموں کے لئے بڑا بھاری دن ہوگا۔ جب یہ لوگ رنج و غم میں اپنے ہاتھوں تک کو چبا ڈالیں گے ان کی زبان پر صرف یہی ہوگا کہ کاش ہم نے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کا اقرار کرلیا ہوتا اور ان لوگوں کا کہا نہ مانا ہوتا جنہوں نے دوست بن کر ہمیں تباہ وبرباد کردیا کاش ہم ایسے لوگوں کو اپنا دوست نہ بناتے جنہوں نے ایک سیدھے راستے کی ہدایت آجانے کے بعد ہمیں راہ مستقیم سے بھٹکادیا اور یہ سب کچھ اس دغا باز شیطان کا کام ہے جو لوگوں کو صراط مستقیم سے ڈگمگا دیتا ہے۔
Top