Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 176
كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْئَیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَ : جھٹلایا اَصْحٰبُ لْئَيْكَةِ : ایکہ (بن) والے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اصحاب الا یکہ (بن والوں) نے رسولوں کو جھٹلایا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 176 تا 191 : اصحاب الایکۃ (بن والے۔ جنگل والے) ‘ اوفوا (تم پورا کرو) الکیل (ماپ تول۔ پیمانہ) المخسرین (نقصان دینے والے) ‘ وزنوا (تم وزن کرو) ‘ القسطاس (ترازو) ‘ لا تبخسوا (تم نہ گھٹائو) ‘ لا تعثوا (تم نہ پھرو) ‘ مفسدین (فساد کرنے والے) ‘ الجبلۃ (مخلوق) ‘ اسقط (گرادے) ‘ کسفا (ٹکڑے ٹکڑے) ‘ یوم الظلۃ (سائبان والا۔ چھتری والا (دن) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 176 تا 191 : جب کوئی قوم ضد ‘ ہٹ دھرمی ‘ سرکشی اور نافرمانی کو اپنا مزاج بنا لیتی ہے تو اس میں یہ احساس مٹ جاتا ہے کہ وہ کس قدر کمزور ‘ ناقابل اعتبار اور غلط بنیادوں پر اپنی زندگی کی تعمیر کررہی ہے۔ اس کو ہر وہ شخص سخت ناگوار گزرتا ہے جو صحیح رخ پر چل رہا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلنے والوں کو بےحقیقت ظاہر کرنے کی ہر ممکن جدوجہد کرے ‘ وہ قوم اپنے حال پر اس طرح مطمئن ہوتی ہے کہ وہ غبط تاویلیں کرکے اپنی اصلاح کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ سورۃ الشعراء میں سات انبیاء کرام اور ان کی دعوت کو قبول کر کے ایمان لانے والوں اور کفر و شرک اور انکار رسالت پر جم جانے والوں کا حال بیان کیا گیا ہے جس میں اسی حقیقت کی طرف واضح اشارے کئے گئے ہیں۔ ان آیات میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر کیا گیا ہے جن کو ” اصحاب الایکہ “ فرمایا گیا ” ایکہ “ کے متعلق مفسرین نے مختلف معنی بیان کئے ہیں۔ ایکہ تبوک کا پرانا نام ہے اسی قوم کی اصلاح کے لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا تھا۔ (2) ایک جنگل ‘ بن ‘ سر سبز و شاداب اور درختوں کے جھنڈ والے علاقے کو کہتے ہیں۔ (3) ایکہ۔ والے ایک درخت کو اپنا معبود مانتے تھے جو ان کے قریب کے بن کا ایک درخت تھا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اس قوم کی اصلاح کے لئے تشریف لائے تھے۔ (4) حضرت شعیب (علیہ السلام) جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اودلاد سے تھے پوری زندی اس قوم کی اصلاح کرتے رہے جو اپنے خوش حالی کی وجہ سے تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا ہوچکی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی اصلاح کے لئے تشریف لائے تھے وہ نہایت متمدن خوش حال اور تجارت پیشہ قوم تھی جو ایسے علاقے میں رہتی تھی جو نہایت سرسبز و شاداب جھاڑیوں ‘ درختوں کی کثرت اور پر فضا مقام پر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی تھی۔ پورا علاقہ نہروں ‘ چشموں اور درختوں کی کثرت کی وجہ سے نہایت حسین نظر آتا تھا۔ خاص طور پر خوشبودار پھولوں کے چمن تھے جو بڑا خوبصورت نظارہ پیش کرتے تھے چونکہ یہ قوم تجارت پیشہ تھی اس لئے مال و دولت کی کثرت نے ان کو دنیاوی زندگی کا ایا دیوانہ بنا دیا تھا کہ وہ بہت سی اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا ہوچکے تھے۔ انہوں نے تجارتی بد دیانتی کو اختیار کرکے ” میزان “ یعنی تو ازن و عتدال کو چھوڑ دیا تھا اور بےایمانی کرنے اور کم تولنے کو اپنا مزاج بنا لیا تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں خود غرضی ‘ لالچ اور کردار کی ہزاروں کمزوریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ مذہبی اعتبار سے اس قوم میں مشرکا نہ رسمیں اس قدر کثرت سے پھیل چکی تھیں کہ ان کے نزدیک وہی اصل دین تھا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب ان کو بتایا کہ وہ خریدو فروخت میں بددیانتی ‘ مشرکانہ رسمیں اور تجارت کے رستوں کو دوسروں پر بند کرنے کی عادت چھوڑ دیں اور صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں جس نے یہ تمام نعمتیں عطا کی ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں نہایت دیانت وامانت والا رسول ہوں مجھے تم سے دنیا کی کوئی چیز بدلہ اور صلہ میں نہیں چاہیے وہ تو میرے رب العالمین کے ذمے ہے میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تم میری بات مانو ‘ پورا تولو ‘ اس میں کمی نہ کرو ‘ ترازو کو سیدھا رکھو ‘ لوگوں کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچائو۔ فسادی لوگوں کی اتباع نہ کرو۔ تمہارا اور تم سے پہلے لوگوں کا خالق صرف ایک اللہ ہے جو تمام عبادتوں کا مستحق ہے۔ اگر تم نے میری بات نہ مانتی ‘ میری اطاعت نہ کی تو تمہارے اوپر تمہاری بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت عذاب آسکتا ہے۔ اس برے انجام سے ڈرو۔ سورۃ الاعراف میں اس واقعہ کو کافی تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) جو نہایت شیریں بیان اور عظیم مقرر تھے جن کو علماء نے ” خطیب الانبیائ “ کا لقب دیا ہے جب اپنی بات کہہ چکے تو پوری قوم غیظ و غضب سے پاگل ہوگئی ‘ آپ کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ اے شعیب ہم تو تم سے بہت اچھی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے مگر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ہماری ان رسموں کو برا کہہ رہے ہو جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔ تم ہمیں تجارتی آداب سکھانے آگئے ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جس سے ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔ تم ہم جیسے آدمی ہو یعنی اللہ کو اگر اپنا نبی بنا کر بھیجنا تھا تو کسی فرشتے کو نبی بنا کر بھیجتے۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ سب جھوٹ ہے۔ کہنے لگے کہ اگر تمہارے اندر طاقت وقوت ہے تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی ہمارے اوپر گرادو۔ غرضیکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) دن رات ان کو سمجھاتے رہے مگر وہ اپنی حرکتوں اور غیر اللہ کی عبادت و بندگی سے باز نہ آئے ‘ بالآخر اللہ نے ان پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ فرمایا۔ اس قوم پر عذاب کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ سات دن تک پورے علاقے میں اس قدر شدید گرمی پڑی کہ پوری قوم بوکھلا اٹھی ۔ وہ ہر طرف اس دھوپ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرتے مگر ان کو گھر میں یا گھر سے باہر کہیں سکون نہ ملتا تھا۔ جب مسلسل سات دن تک شدید دھوپ اور گرمی پڑی تو ایسا لگتا تھا کہ آسمان آگ برسارہا ہے کہ اچانک آسمان پر ایک گہری گھٹا اور بادل چھا گئے۔ گرمی سے پریشان حال لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ خوشیاں منانا شروع کردیں اور سب کے سب گھروں سے باہر نکل پڑے اور بادلوں کے سائے میں آگئے۔ اس کی بعد ان لوگوں نے دیکھا کہ ابر پھٹا اور اس میں سے آگ برسنا شروع ہوگئی۔ زمین ہلنے اور زور زور سے جھٹکے لینے لگی۔ ایک زور دار اور ہیبت ناک آواز آئی جس سے کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ یہ عذاب اتنا بڑھتا گیا کہ نافرمانوں میں سے کوئی بھی اس عذاب سے نہ بچ سکا۔ اس کیبرخلاف اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور آپ کی بات مان کر ایمان لانے والوں کو پوری طرح نجات عطا فرمادی۔ اس عذاب کو ” یوم الظلہ “ فرمایا گیا ہے جو عذاب سائے کی طرح ان پر مسلط کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ پر آخر میں بھی ان ہی دو آیات کو ارشاد فرمایا ہے کہ اس واقعہ میں عبرت و نصیحت کی نشانیاں موجود ہیں۔ لیکن ان نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود بھی اکثر و بیشتر لوگ وہ ہیں جو کسی واقعہ سے نصیحت حاصل نہیں کرنا چاہتے اور اپنی روش زندگی میں کسی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ اس کائنات میں ساری قوت و طاقت کا مالک صرف اللہ ہے جو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ اور بالاخر سب کو اس کی پاس لوٹ کر جانا ہے جہاں وہ فیصلہ فرمادے گا۔
Top