Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور بیشک (یہ قرآن) رب العالمین نے نازل کیا ہے
لغات القرآن : آیت نمبر 192 تا 213 : روح الامین (حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) ) ‘ لسان (زبان) ‘ زبر (صحیفے۔ کتابیں) ‘ اعجمین (عجمی لوگ۔ گونگے) ‘ سلکنا (ہم نے چلایا (داخل کیا) ‘۔ حتی یروا (جب تک وہ دیکھ نہ لیں) ‘ بغتۃ (اچانک) ‘ منظرون (مہلت دیئے گئے) یستعجلون (وہ جلدی کرتے ہیں) ‘ متعنا ( ہم نے فائدہ پہنچایا) ‘ ما اغنی (کام نہ آیا) یمتعون ( وہ فائدہ اٹھاتے ہیں) ‘ منذرون (ڈرانے والے) ‘ ذکری (نصیحت۔ یاددھانی) ‘ ماینبغی (مناسب نہیں ہے۔ شان نہیں ہے) ‘ یستطیعون (وہ طاقت رکھتے ہیں) ‘ معزولون (دور کردیئے گئے) ‘ لاتدع (نہ پکار) ‘ المعذبین (عذاب میں مبتلا کئے گئے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 192 تا 213 : اللہ تعالیٰ نے سورة الشعراء میں سات انبیاء کرام کا ذکر فرمایا ہے تاکہ ان کی قوم کی مسلسل نافرمانیوں اور ان پر جو عذاب سے تباہی و بربادی آئی تھی اس سے عبرت و نصیحت حاصل کی جاسکے۔ اب فرمایا جارہا ہے نبی کریم ﷺ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہیں۔ اللہ نے جو قرآن کریم نازل فرمایا ہے وہ ایک معتبر اور امانت دار فرشتے جبرئیل کے ذریعہ قلب مصطفیٰ ﷺ پر نازل کیا گیا ہے جو نہایت صاف اور واضح عربی زبان میں ہے ۔ شیطانوں کی یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اتنے عظیم قرآن کریم کو لے کر نازل ہوتے یا انپے کاہنوں کو بتاتے کیونکہ یہ وحی اس قدر محترم ہے کہ شیطانوں کو اس سے روک دیا گیا ہے کہ وہ اسکلام کی سن گن بھی لے سکیں۔ یہ قرآن کریم ایک ایسی سچائی ہے جسکو سارے نبی کہتے چلے آئے ہیں ان کی کتابیں اس پر گواہ ہیں۔ اس کی سب سے روشن اور واضح دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے اہل علم اس سے اچھی طرح واقف ہیں مگر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور وقتی مفادات کی وجہ سے وہ بہانے کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ قرآن کریم جو نبی کریم ﷺ پر نازل کیا گیا ہے اگر کسی ایسے شخص پر اس کو نازل کردیا جاتا جو عربی سے واقف تک نہ ہوتا عجمی ہوتا پھر وہ اسکو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھ کر ان کو سنا دیتا تو پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ نہ ماننے کے سو بہانے ہو کرتے ہیں۔ فرمایا کہ اب تو انکو اس وقت ہی یقین آسکتا ہے جب اچانک ان کی بیخبر ی میں ایسا شدید عذاب آجائے جس سے ان کی بنیادیں تک ہل جائیں۔ اس وقت یہ رو کر چلا کر فریاد کریں گے کہ اگر ان کو کچھ اور مہلت مل جاتی تو وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرلیتے۔ فرمایا کہ اگر اللہ ان کو کچھ اور مہلت دے کر عیش و عشرت کی زندگی عطا کردیتا تو یہ ان کے کسی کام نہ آتی کیونکہ جو لوگ ایک طویل عرصہ رہنے کے باوجود اپنی اصلاح کی فکر نہ کرسکے چند دنوں میں وہ اپنی اصلاح کا کیا کام کریں گے۔ یہ تو کہنے کی باتیں اور بہانے ہیں۔ ماننے والوں کو کسی مہلت اور بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس بات کو ان آیات میں بیان فرمایا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! یہ قرآن مجید جسے اللہ رب العالمین نے آپ کے قلب مبارک پر ایک امانت دار اور معتبر فرشتے (جبرئیل امین) کے ذریعہ صاف اور واضح عربی میں نازل کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے برے اعما کے برے نتائج سے آگاہ فرمادیں۔ یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کی سچائیوں کا ذکر ہر آسمانی کتاب میں موجود ہے۔ اس سے بڑھکر اور کیا دلیل ہوگی کہ علماء بنی اسرائیل اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کریم کو کسی ایسے شخص پر نازل کرتے جو عربی زبان سے ناواقف ہوتا۔ پھر وہ اسکو پڑھ کر سناتا تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے (تاریخ انسانی گواہ ہے کہ) ایسے مجرم لوگ اسی طرح کا طرز عمل اختیار کیا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت تک اس پر ایمان نہ لائیں گے جب تک یہ لوگ دردناک عذاب کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے جو عذاب اچانک انکے سروں پر آکر کھڑا ہوجائے گا جس کی انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ اس وقت یہ لوگ کیں گے کہ کیا ہمیں کچھ اور مہلت مل سکتی ہے۔ (تاکہ ہم اپنی اصلاح کرسکیں) فرمایا کہ کیا یہ لوگ وہی نہیں ہیں جو اس بات کا مطالبہ کرتی تھے کہ ان پر جس عذاب کو آنا ہے جلد ہی آجائے۔ فرمایا کہ اگر ہم ان کو کچھ برسوں تک کچھ اور مہلت دے بھی دیں تاکہ وہ عیش و عشرت سے زندگی گزار سکیں اور پھر ان وہی عذاب آجائے جس سے ڈرایا گیا تھا تو کیا یہ مہلت ان کے کسی کام آسکے گی ؟ فرمایا کہ ہم اپنے بندوں پر ظلم و زیادتی نہیں کرتے بلکہ کسی بستی پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتے جب تک ان میں کوئی برے اعمال کے برے نتائج سے آگاہ کرنے والا (ڈرانے والا) نہ بھیج دیں چناچہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے نیک بندوں کو بھیجتا رہا ہے اور اس نے آخر میں نبی کریم ﷺ کو قیامت تک آنے والے لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیج دیا ہے اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کو امت کے سینوں اور ذہنوں میں محفوظ کردیا ہے تاکہ ہر شخص اس سے اچھی طرح آگاہی حاصل کرتا رہے۔ فرمایا کہ یہ قرآن کریم جس کو جبرئیل قلب مصطفیٰ ﷺ پر لے کر نازل ہوتے ہیں یہ ایک محفوظ کلام ہے۔ شیطانوں کی یہ مجال اور طاقت نہیں ہے کہ وہ اس کلام کو لاسکیں ‘ یا اس کے پاس بھی پھٹک سکیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے محفوظ ہے اور نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت بھی قیامت تک کے لئے محفوظ ہے۔ جس طرح قرآن کریم کو شیطانوں سے محفوظ کیا گیا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی شان ختم نبوت کو بھی محفوظ کردیا ہے آپ کے بعد کوئی شیطان ہی نبوت کا دعوی کرسکتا ہے ورنہ کسی انسان کی مجال نہیں ہے۔ کہ وہ آپ جیسے عظیم نبی و رسول ﷺ کے بعد کسی طرح کی نبوت کا اعلان کرسکے۔
Top