Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ
وَاَنْذِرْ : اور تم ڈراؤ عَشِيْرَتَكَ : اپنے رشتہ دار الْاَقْرَبِيْنَ : قریب ترین
(اے نبی ﷺ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (اللہ کے خوف سے) ڈرائیے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 214 تا 227 : عشیرۃ (قبیلہ۔ خاندان۔ رشتہ دار) اخفض (جھکا دے۔ عاجزی اور تواضع کر) جناح (بازو۔ پر) ‘ بری ئ (بیزار ۔ نفرت) ‘ توکل (بھروسہ کر) تقلب (الٹنا پلٹنا۔ اٹھنا بیٹھنا) ‘ افاک (بہتان و الزام لگانے والا) ‘ اثیم (گناہ کرنے والا۔ گناہ گار) ‘ الغاون (گمراہ لوگ) ‘ یھیمون (وہ گھومتے ہیں) ‘ انتصروا (انہوں نے بدلہ لیا) ‘ ای (کونسا) ‘ منقلب (لوٹنے والا) ‘ ینقلبون (وہ لوٹ کرجاتے ہیں) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 214 تا 227 : نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ کے محبوب پیغمبر اور معصوم ہیں جن کی طرف کسی گناہ ‘ خطا یا شرک کا تصور کرنا بھی گناہ ہے۔ آپ کی سیرت و کردار اور قول و فعل یکسانیت کا ایک حسین مجموعہ ہے۔ لعذا آپ جو توحید الہی کے داعی ہیں آپ سے شرک کا صدور ممکن ہی نہیں ہے۔ یہاں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے یہ فرمانا کہ ” اے نبی ﷺ ! آپ اللہ کے ساتھ اپنی مشکلات کے حل کے لئے کسی دوسرے معبود کو نہ پکارئیے ورنہ آپ بھی ان لوگوں میں سے ہوجائیں گے جن کو عذاب دیا جاتا ہے “۔ درحقیقت توحید کی عظمت قائم کرنے اور ہر طرح کے شرک و کفر سے پوری امت کو نفرت دلائی جارہی ہے۔ خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے لیکن آپ کی وساطت سے پوری امت اور آنے والی نسلوں کو بتایا جارہا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبودوں کو پکارنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس شرک کا ارتکاب اللہ کے محبوب نبی سے بھی ہوجائے تو وہ بھی اللہ کے قانون کی زد میں آسکتے ہیں یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جب ایک مرتبہ بنی مخزوم جیسے معزز قبیلے کی ایک خاتون نے چوری کرلی تھی۔ گواہوں سے جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس نے واقعی چوری کی ہے تو آپ ﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق ہاتھ کاٹنے کا حکم دیدیا۔ چونکہ یہ پبیلہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور خود نبی کریم ﷺ بھی اس قبیلے کے داماد تھے اس لئے حضرت اسامہ ابن زید کو قبیلے کے لوگوں نے سفارشی بنا کر بھیجا تاکہ فاطمہ مخزومی کی یہ سزا معاف کردی جائے۔ حضرت اسامہ جن کی کسی بات کو آپ ﷺ نہیں ٹالتے تھے اور اولاد کی طرح شفقت و محبت فرماتے تھے آپ ﷺ نے سن کر فرمایا کہ اسامہ یہ تو فاطمہ مخزومی ہے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ گویا آپ ﷺ نے اپنی اس بیٹی پر بات کو رکھ کر فرمایا جو صرف خاتون جنت ہی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سب سے چہیتی بیٹی تھیں۔ یعنی اگر خاتون جنت بھی اس قانون کی زد میں آجاتیں تو ان کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہ کی جاتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے پوری امت اور آنے والی نسلوں کو بتایادیا کہ اللہ کے ساتھ اس کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک کرنا اور غیر اللہ کو اپنی حاجت روائی کے لئے پکارنا اتنا بڑا جرم اور ظلم عظیم ہے کہ اس میں کسی کی کوئی رعایت نہیں ہے۔ فرمایا کہ اس نصیحت کا آغاز آپ اپنے گھر ‘ خاندان اور قبیلے والوں سے کیجئے اور ان کو برے اعمال کے بدترین انجام سے ڈرائیے اور آگاہ کیجئے جو لوگ آپ کے کہنے سے آگاہ اور خبردار ہوجائیں اور ایمان و عمل صالح کو اختیار کرلیں آپ ان سے نہایت مشفقانہ برتائو کیجئے۔ لیکن اگر وہ آپ کی اطاعت و فرماں برداری کو قبول نہ کریں اور انکار کردیں تو آپ صاف طور پر اس بات کا اعلان کر دیجئے کہ میں تمہاری نافرمانیوں اور بداعمالیوں سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ اس صداقت کی بات کو بغیر کسی خوف اور کسی کی پرواہ کئے بغیر کہیے اللہ پر بھروسہ کیجئے کیونکہ وہ اللہ سب سیزیادہ طاقت و قوت والا اور رحم وکرم کرنے والا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! ہم آپ کو اپنی نگاہ میں رکھے ہوئے ہیں اور نگرانی کررہے ہیں خواہ آپ کی زبان سے حق و صداقت کا اعلان وہ یا عبادات اور رکوع و سجدوں کی کثرت ہو ہم سنتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ لہٰذا آپ کسی کی پرواہ نہ کیجئے کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگر یہ آپ کو طرح طرح سے ستائیں طعنے دیں۔ شاعر کاہن ‘ مجنون اور دیوانہ کہیں تو آپکی زندگی اور آپکا کردار ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہے جس کی عظمت کا انکار ممکن ہی نہیں ہے اور آپ ان کی بکواس سے متاثر نہ ہوں۔ آپ کو جو لوگ شاعر کہتے ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میری زندگی ‘ میرا کردار سب تمہارے سامنے ہے تم نے شاعروں کی زندگی کو بھی دیکھا ہے وہ سوائے گمراہی کی پیروی کرنے ‘ اپنے خیالات کے میدان میں دوڑنے ‘ خیالات کی دینا میں گم رہنے ‘ ہر وقت دوسروں کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھنے والے ہوتے ہیں وہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ ان کے اشعار میں جتنی بلندی نظر آتی ہے ان کے کردار کی پستی اس سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے اگر کسی کی تعریف کرنے پر آئیں گے تو زمین وآسمان کے قلابے ملادیں گے اور اگر ناراض ہوکر کسی کی توہین اور ہجو پر اتر آئیں گے تو اس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں گے وہ شاعر ہر میدان کے کھلاڑی ہوتے ہیں اور ہر وادی میں گھومتے پھرتے ہیں۔ فرمایا گیا کہ کردار کا یہ جھول ‘ کمزوری اور قوم و فعل کا تضاد کیا تمہیں میری زندگی میں کبھی نظر آیا ہے ؟ یقیناً عرب کا بچہ بچہ اس پر پکار اٹھے گا کہ آپ میں شاعروں کی جیسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ قول و عمل کی یکسانیت کو آپ کے کردار اور زندگی سے آبرو ملی ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ پر یہ قرآن کوئی جن لے کر اترتا ہے یا کاہنوں کی طرح جنات آسمان کی باتیں آکر سنادیتے ہیں جس کو آپ نقل کردیتے ہیں۔ فرمایا گیا کہ آپ کہئے کہ میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں۔ تو سنو ! شیطان تو ہر بد کردار ‘ جھوٹے اور دھوکے باز شخص پر اترتے ہیں جو ایسی جھوٹی باتیں سن کر ان پر کان لگاتے ہیں اور ان کو جھوٹی اور پر فریب باتیں ہی پسند ہوتی ہیں۔ 1۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ﷺ نے تمام بنو قریش کو بلاکر اللہ کے دین کی طرف دعوت دی۔ پھر مکہ مکرمہ کے پہاڑ پر چڑھ کر سارے مکہ والوں کو بلا کر بتایا کہ اگر تم نے اللہ سے توبہ نہ کی تو شیطان کا لشکر بہت جلد تم پر حملہ کردے گا۔ یہ پہلی آواز تھی جس کے ذریعہ آپ نے اپنے خاندان ‘ قبیلے اور شہر والوں کو اللہ کا خوف دلایا۔ اس کے بعد جب انہوں نے طعن و تشنع سے گزر کر آپ کے ساتھ زیادتیوں کا معاملہ شروع کردیا تو آپ نے مکہ مکرمہ کی تیرہ سالہ زندگی میں کسی سے انتقام یا بدلہ نہیں لیا اور اگر آپ نے بدلہ لیا تو اس میں کسی کیساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ 2۔ فرمایا کہ شاعروں کا کام تو یہ ہے کہ وہ گمراہی کی پیروی کرتے ہیں اور فکر و خیال کی ہر وادی میں ٹکریں مارتے پھرتے ہیں۔ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ‘ لیکن اس اصول سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان اور عمل صالح کا پیکر ہیں۔ کیونکہ جس دل میں ایمان آجائے اور وہ عمل صالح کے راستے پر لگ جائے تو وہ حق و صداقت کی آواز کو اپنے اشعار میں ڈھال کر مردہ دلوں میں امنگ اور حق و صداقت سے بھٹک جانے والوں کو سچا راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مردہ قوم میں اپنے ایمانی اشعار کے ذریعہ ایک نئی زندگی پھونک دیتے ہیں اور ہر وقت اپنی آخرت کی فکر کرتے ہیں۔ 3۔ اہل ایمان کے اخلاق کریمانہ کا تقاضا تو یہی ہے کہ جب ان کے ساتھ کوئی زیادتی یا ظلم کیا جاتا ہے تو وہ اسکو معاف کردیتے ہیں لیکن اگر وہ اس کا بدلہ بھی لیتے ہیں تو اس احتیاط کے ساتھ کہ ان کی طرف سے کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوتی کیونکہ اس بات پر ان کا یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہی مظلوم کا ساتھ دے گا اور ان کے ساتھ انصاف فرمائے گا۔ ان آیات پر سورة الشعراء کو ختم فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین الحمد للہ ان آیات کا ترجمہ و تشریح کے تکمیل تک پہنچی واخر دعوانا ان ان الحمد للہ رب العالمین
Top