Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 23
قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَؕ
قَالَ فِرْعَوْنُ : فرعون نے کہا وَمَا : اور کیا ہے رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور فرعون نے کہا کہ ” رب العالمین “ کیا ہے ؟
لغات القرآن : آیت نمبر 23 تا 33 : موقنین (یقین کرنے والے) ‘ حولہ (اس کا اردگرد۔ آس پاس) ‘ الا تستمعون (کیا تم سنتے ہو ؟ ) ‘ اتخذت (تونے بنایا) ‘ المسجونین (قیدکئے گئے) ‘ عصا (لاٹھی) ‘ ثعبان (اژدھا۔ بڑا سانپ) ‘ نزع (اس نے نکالا۔ اس نے کھینچا) ‘ بیضاء سفید۔ روشن ‘ نظرین (دیکھنے والے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 23 تا 33 : جیسا کہ گذشتہ آیات میں آپ نے پڑھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) اللہ کا پیغام لے کر فرعون کے بھرے دربار میں پہنچے تو فرعون بوکھلا گیا پہلے تو اس نے اپنی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان احسانات کو یاد دلایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پانی سے نکال کر بڑی محبت اور شفقت سے اس کے محل میں عیش و آرام سے رکھ کر ان کی پرورش کی گئی تھی۔ دوسری بات یہ یاد دلائی گئی کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بغیر ارادہ کے ایک قبطی کو قتل کردیا تھا اور اس خوف سے کہ کہیں فرعون اور اس کے درباری ان سے ناحق بدلہ نہ لے لیں مدین کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ فرعون کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان مہر بانیوں کو یاد تو کرو جو ہم نے آپ کو پال پوس کر اتنا بڑا کیا تھا اور تم نے احسان ماننے کے بجائے ایک قبطی کو بھی قتل کردیا تھا۔ کیا احسانات کا بدلہ اسی طرح دیا جاتا ہے ؟ ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے فرعون مجھ سے تو بغیر کسی قصد و ارادے کے ایک قبطی کا قتل ہوگیا تھا لیکن تو نے سارے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا کر ان کے بچوں کو ذبح کیا تھا۔ اگر میری والدہ نے مجھے ایک صندوق یا ٹوکرے میں رکھ کر دریا میں نہ بہادیا ہوتا اور (ایک لاوارث) بچہ سمجھ کر مجھے تمہارے محل میں پرورش نہ کرایا ہوتا تو میرا حشر بھی بنی اسرائیل کے اور بچوں کی طرح ہوتا۔ فرعون سمجھ گیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ان باتوں کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے اس نے فوراً انداز گفتگو بدل دیا اور کہنے لگا کہ ساری دنیا کا ” رب اعلی “ تو میں ہوں۔ میرے علاوہ یہ رب العالمین کون ہے ؟ کیا ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بیان کرنا شروع کیا۔ فرعون درمیان درمیان میں ٹوکتارہا تاکہ آپ کی گفتگو بےاثر ہوجائے اور درباری اس سے متاثر نہ ہوں لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا خطاب جاری رکھا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم یقین کرنے والے ہو تو یہ بات سن لو زمین ‘ آسمان اور اس کے درمیان جو بھی مخلوق ہے ان سب کا پروردگار صرف اللہ رب العالمین ہے۔ فرعون نے طنز بھرے انداز میں درباریوں سے کہا کہ تم نے یہ ایک عجیب بات سنی ہے کہ میرے سوا بھی کوئی رب العالمین ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے گفتگو اور خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمہارا اور تم سے پہلے لوگوں کا پروردگار ہے یعنی جب فرعون نہیں تھا وہ اس وقت بھی رب العالمین تھا اور جب یہ فرعون نہیں رہے گا اس وقت بھی صرف اسی ایک اللہ کی حکومت اور سلطنت ہوگی۔ فرعون پھر بولا کہ لوگو ! اس کی بات مت سنو مجھے تو ایسا گتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر دیوانگی طاری ہے اور وہ اپنی عقل کھو بیٹھا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ وہ رب العالمین ہر سمت کا مالک ہے خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب یا اس کے درمیان کی ہر طرح کی مخلوق وہی سب کا رب العالمین ہے اگر تم ذرا بھی عقل سے کام لو گے تو یہ حقیقت تمہارے اوپر کھل جائے گی۔ جب فرعون نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں کا اثر درباریوں پر ہورہا ہے تو اب وہ غصہ میں آگیا اور کہنے لگا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) اگر تم میرے سوا کسی کو بھی اپنا معبود کہا تو میں تمہیں جیل میں سڑادوں گا اور سخت سزا دوں گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے تو فرمایا کہ اچھا یہ بتا کہ اگر میں تیرے سامنے سچائی کی دلیل پیش کروں کیا اس وقت بھی تو میرے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرے گا ؟ فرعون کہنے لگا کہ اگر تم واقعی کسی رب العالمین کے نمائندے ہو تو تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے اگر تم اپنے وعدے میں سچے ہو تو وہ دلیل اور معجزہ پیش کرو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا جیسے ہی زمین پر پھینکا تو وہ ایک بڑا خوف ناک اژدھا بن گیا۔ فرعون اور درباری سناٹے میں آگئے۔ جب اس اژدھے نے ادھر ادھر دوڑنا اور پھنکار نا شروع کیا تو پورے دربار میں بھگدڑ مچ گئی اور ایک دوسرے پر گرتے ‘ پڑتے ‘ چیختے ‘ چلاتے سب کے سب بھاگ نکلے۔ جب اس بڑے سانپ اژدھے نے فرعون کے شاہی تخت کی طرف رخ کیا تو فرعون مارے خوف کے تخت شاہی کے پیچھے چھپ گیا۔ کہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تم سب سے پہلے اس مصیبت کو دور کرو جس نے پورے دربار میں تباہی مچارکھی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اس اژدھے کے منہ میں ہاتھ ڈالا تو وہ سانپ پھر سے عصا بن گیا۔ جب خوف جاتارہا تو فرعون اور اس کے درباری پھر سے جمع ہوگئے اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے داہنے ہاتھ کو بغل میں ڈال کر نکالا تو آپ کا ہاتھ چاند سورج کی طرح چمکنے لگا۔ یہ وہ دومعجزات تھے جن کو فرعون اور درباریوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مگر ان معجزات کو دیکھ کر بھی وہ ایمان نہ لائے تھے جس کے نتیجے میں اللہ نے فرعون اور اس کے درباریوں کو اسی پانی میں غرق کردیا تھا جس پانی نے اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو سمندر کے دوسری طرف حفاظت سے پہنچانے کا انتظام کردیا تھا۔ اہل مکہ سے کہا جارہا ہے کہ تم جو نبی کریم ﷺ سے ہر روز کسی نہ کسی معجزہ دکھانے کا مطالبہ کرتے ہو۔ کیا فرعون اور اس کے درباری بھی ان معجزات کو دیکھ کر ایمان لائے تے ؟ البتہ اللہ نے جب جادوگروں کو ایمان کی توفیق عطا فرمائی تو وہ اس ظالم فرعون کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور فرعون کی دھمکیوں سے ان کے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کفار مکہ کو بتایا جارہا ہے کہ جس طرح نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے والے صحابہ کرام ؓ اپنے ایمان کی طاقت سے پورے عرب کے کفار کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور صبر و تحمل سے ہر طرح کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ کفار مکہ کی دھمکیاں اور تکالیف ان کو راہ حق سے بھٹکا نہ سکیں گی جب ایمان دل میں پختہ ہو کر آجاتا ہے تو پھر اہل ایمان کے دل میں سوائے اللہ کے خوف کے کسی اور کا کوئی خوف نہیں رہتا۔ اللہ نے کفار مکہ کے سامنے اس آئینہ کو رکھ کر فرمایا ہے کہ تم فرعون اور اس کے دربار یوں کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہو یا ان سچے مسلمانوں کی طرح جنہوں نے اپنے ایمان کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور گئیں ؟ ۔
Top