Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 34
قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗۤ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ
قَالَ : فرعون نے کہا لِلْمَلَاِ : سرداروں سے حَوْلَهٗٓ : اپنے گرد اِنَّ ھٰذَا : بیشک یہ لَسٰحِرٌ : جادوگر عَلِيْمٌ : دانا، ماہر
فرعون نے اپنے اردگرد کے سرداروں سے کہا کہ یہ تو کوئی بڑا ماہر جادوگر ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 34 تا 51 : ساحر علیم (ماہر جادو گر۔ بہت جاننے والا جادوگر) ‘ ماذا تامرون (تم کیا مشورہ دیتے ہو۔ تم کیا کہتے ہو) ‘ ارجہ (چھوڑدے اس کو۔ اس کو مہلت دے) ‘ حشرین (جمع کرنے والے۔ ہر کارے) ‘ میقات (مقرر وقت۔ مقرر جگہ) مجتمعون ( جمع ہونے والے) ‘ المقربین (قریب بیٹھنے والے) ‘ حبال (حبل) رسیاں ‘ عصی (لاٹھیاں) ‘ تلقف (نگلنے لگا) ‘ یا فکون ( وہ کھیل کھلونے بناتے ہیں) ‘ کبیر کم ( تمہارا بڑا۔ تمہارا استاد) ‘ اقطعن ( میں ضرور کاٹ ڈالوں گا) ‘ ایدی (ایدین) دونوں ہاتھو ‘ ارجل (رجل) پاؤں ‘ اصلبن (میں ضرور پھانسی چڑھادوں گا) ‘ لاضیر (کوئی حرج نہیں) ‘ منقلبون (پلٹ کر جانے والے) نطمع ( ہم توقع رکھتے ہیں۔ ہم لالچ رکھتے ہیں) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 34 تا 51 : فرعون اور اسکیدرباریوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس عصا کو جو ایک بڑا سانپ یعنی اژدھا بن گیا تھا اور وہ ید بیضا یعنی چمک دار ہاتھ جو پاند اور سورج کی طرح چمک رہا تھا دیکھ لیا تھا۔ جب بڑی بڑی ڈینگیں مارنے والے فرعون اور فخر و غرور کے پیکر وزیروں اور درباریوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ان معجزات کو دیکھا تو سب کی سب انتے خوف زدہ ہوگئے کہ اپنی جان بچانے کے لئے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ اور فرعون کو تنہا چھوڑ گئے۔ جب اس بڑے سانپ نے فرعون کی طرف رخ کیا تو دہشت کیمارے فرعون تخت شاہی کے پیچھے چھپ کر کہنے لگا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اس مصیبت کو ہم سے دور کرو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اژدھے کے منہ میں ہاتھ ڈالا تو وہ پھر سے عصا (لاٹھی ) بن گیا۔ ایک دفعہ پھر دربار لگایا گیا اور ان تمام درباریوں سے جوان کھلے ہوئے معجزات کو دیکھ کر بہت متاثرہو چکے تھے۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لئے فرعون کہنے لگا کہ لوگو ! جو کچھ تم نے دیکھا ہے یہ معجزات نہیں ہیں بلکہ ایک کھلا ہوا دادو ہے۔ یہ سب کچھ دکھا کر دراصل موسیٰ اور ہارون تمہاری سرزمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمہاری بےمثال تہذیب اور ترقیات کو ختم کرکے ان پر اپنی اجارہ داری قائم کرلیں۔ اس نے درباریوں اور مشیروں سے پوچھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ کیونکہ اس طرح تو موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون کی ہمتیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ درباریوں نے کہا کہ اس معاملے میں سختی کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ ان دونوں کو کچھ وقت تک نظر انداز کرکے کچھ مہلت دے دو ۔ جادو کا جواب جادو سے ہی ہو سکتا ہے۔ ملک میں ایسے ماہر جادو گروں کی کمی نہیں ہے جو ان کے جادو کا توڑ کرسکتے ہیں۔ چناچہ فرعون نے پورے ملک کے جادو گروں کو جمع کرنے کا حکم دیا اور لوگوں سے کہا کہ تم سب بھی جمع ہو جائو۔ اور اس کے لئے وہ دن زیادہ بہتر ہے جب کہ ہمارا سب سے بڑا میلہ ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی یہ بتایدا کہ ” یوم الزینہ “ یعنی میلے والے دن تمہارا اور جادوگروں کا مقابلہ ہوگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے چیلنج کو قبول کرلیا۔ جب میلے والے دن صبح کے وقت سب ماہر جادو گر جمع ہوگئے تو جادو گر کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہمارا انعام کیا ہوگا ؟ فرعون نے کہا نہ صرف تمہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے گا بلکہ تمہیں قرب شاہی بھی عطا کیا جائے گا۔ یہ دن چونکہ قبطیوں کے قومی عید کا دن تھا اس لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوتے گئے۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پورے مجمع سے اور خاص طور پر جادو گروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگو ! تم اللہ کے دین پر آجائو اور اس پر جھوٹی باتیں نہ گھڑو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اوپر اللہ کا عذاب آجائے جو تمہیں بنیادوں سے اکھاڑ کر پھینک دے گا حق و صداقت کی بات میں ہمیشہ ایک جان اور قوت ہوتی ہے سب کے دلوں پر اثر ہوا اور خاص طور پر جادو گر بھی کافی متاثر ہوچکے تھے مگر دنیاوی لالچ اور فرعون کے قرب کی تمنا ان کو راہ حق سے روک رہی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جادو گر کہنے لگے کہ اے موسیٰ ٰ تم جادو ڈالنے کی ابتداء کرتے ہو یا ہم کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت سادگی سے جواب دیا کہ تم پہل کرو۔ جادو گر جنہیں اپنے کمالات پر بڑا ناز تھا انہوں نے نہایت فخر کے ساتھ اپنی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکنا شروع کیں جن پر وہ جادو کا منتر پڑھتے جاتے تھے جس سے ایسا محسوس ہوا جیسے پورا میدان چھوٹے بڑے سانپوں سے بھر گیا ہے۔ جادو گرجانتے تھے کہ حقیقت میں وہ سانپ نہ تھے بلکہ نظر بندی کا کھیل تھا جو لوگوں کو سانپ نظر آرہے تھے مگر جادو گروں کو رسیاں اور لاٹھیاں ہی نظر آرہی تھیں۔ جب پورا میدان سانپوں سے بھر گیا تو بشری تقاضے کے تحت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کچھ پریشان ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ نہ گھبرائیں اب آپ اپنا عصا پھینکئے اور ہماری قدرت دیکھئے۔ جیسے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک زبردست اژدھا بن گیا جس نے جادو گروں کے پھیلائے ہوئے سانپوں کو نگلنا شروع کیا۔ پھوڑی دیر میں پورا میدان صاف ہوگیا۔ جب لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ بوکھلا گئے۔ لیکن جادو گرجواب تک نظر بندی کا کھیل دکھا رہے تھے جب انہوں نے اس عصا کو اژدھا بنتے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ یہ واقعی معجزہ ہے نظر بندی یا فریب نظر نہیں ہے۔ وہ تمام جادو گر فوراً اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور انہوں نے اعلان کردیا کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے پروردگار پر ایمان لے آئے۔ کیونکہ وہ رب العالمین ہے۔ اس العان سے پورے مجمع پر سنا ٹھا چھا گیا۔ فرعون اپنی بےعزتی برداشت نہ کرسکا اور کہنے لگا کہ تم نے میری اجازت کے بغیر ہی ایمان قبول کرلیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تمہاری ملی بھگت ہے یہ موسیٰ تم سب کا استاد ہے جس نے تمہیں جادوسکھایا ہے۔ تہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس غداری کی سزا کتنی سخت ہے۔ میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ کر تمہیں سولی پر لٹکا دوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور سچائی کی طاقت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہی جادو گر جو کچھ دیر پہلے تک انعام و اکرام اور بادشاہ کے قرب کیلئے بےقرار تھے جب سچائی ان کے سامنے آگئی اور انہوں نے ایمانقبول کرتے ہوئے فرعون کی دھمکیوں کو نظر انداز کرکے کہنا شروع کیا کہ اے فرعون ! تو جو کچھ کرسکتا ہے وہ کر ڈال اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اگر ہم قتل کردیئے جائیں گے یا سولی پر چڑھادیئے جائیں گے تو ہم اپنے پروردگار ہی کے پاس جائیں گے جو ہمیشہ جنت کی ابدی راحتوں میں رکھے گا۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہماری خطاؤں کو معاف کردے گا کیونکہ اس وقت ہم تمام لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل تو اگلی آیتوں میں آرہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب تک انسان میں سچا ایمان گھر نہیں کرلیتا اس وقت تک وہ دنیاوی لالچ اور عہدوں کی فکر میں لگا رہتا ہے لیکن جب ایمان کے نور سے دل روشن ومنور ہوجاتے ہیں تو پھر ان دلوں میں سوائے اللہ کے خوف کے کسی دوسرے کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺ نے جب اعلان نبوت فرمایا تو لوگوں نے آپ کو ہر طرح تنگ کیا لیکن جن سعادت مندوں کے حصے میں ایمان کی دولت آگئی تھی تو وہ اسی طرح کفر کے مقابلے میں ڈٹ گئے تھے جس طرح فرعون کے مقابلے میں ایمان لانے والے جادو گر ڈٹ گئے تھے اور انہوں نے اپنی جان و مال اور گھر بار کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ کو دنیا میں بھی عزت و سربلندی عطا فرمائی اور آخرت میں ان کا وہ عظیم مقام ہوگا جس کا اس دنیا میں تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایمان کی حلاوت و عظمت نصیب فرمائے ۔ آمین
Top