Baseerat-e-Quran - An-Naml : 38
قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ
قَالَ : اس (سلیمان) نے کہا يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَيُّكُمْ : تم میں سے کون يَاْتِيْنِيْ : میری پاس لائے گا بِعَرْشِهَا : اس کا تخت قَبْلَ : اس سے قبل اَنْ : کہ يَّاْتُوْنِيْ : وہ آئیں میرے پاس مُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار ہو کر
(سلیمان (علیہ السلام) نے ) کہا اے سردارو ! تم میں سے وہ کون ہے جو اس کا (ملکہ بلقیس) تخت میرے پاس لے آئے۔ اس سے پہلے کہ وہ فرماں بردار بن کر یہاں آئے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 38 تا 44 : ایکم (تم میں سے کون ؟ ) ‘ مسلمین (فرماں برداری اختیار کرنے والے) عفریت (قوت و طاقت والا) ان یرتد (یہ کہ وہ پلٹے) طرف (پلک۔ آنکھ کا گوشہ) ‘ مستقر (رکھا ہوا) ‘ نکروا (شکل بد ل دو ۔ تبدیلی کردو) اھکذا (کیا ایسا ہی ہے ؟ ) کانہ ھو (جیسے اسی جیسا ہو) صد (اس نے روکا) ‘ الصرح (محل) لجۃ (گہرا پانی ) ‘ ساق (پنڈلی (ساقین) ممرد (جڑا ہوا) قواریر (شیشے۔ آیئنے) اسلمت (میں نے فرماں برداری اختیار کرلی) ۔ تشریح : آیت نمبر 38 تا 44 : جب ہدہد پرندے نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط سبا کی ملکہ بلقیس کو پہنچایا تو اس نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اتنی بڑی اروطاقت ور شخصیت سے ٹکرائو کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو آزمانے اور کچھ وقت لینے کے لئے نہایت قیمتی تحفے بھیجے۔ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے تحفے واپس کرکے فرمایا کہ وہ یا تو فرماں بردار بن کر حاضر وہ جائیں یا اس عظیم لشکر کا مقابلہ کرے کے لئے تیار ہوجائیں جو اس کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دے گا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے اس طرز عمل سے ثابت کریدا کہ ان کا مقصد دنیا کی دولت ‘ حکومت و سلطنت نہیں ہے بلکہ ایمان اور عمل صالح کی طرف دعوت دینا ہے۔ جو لوگ ملکہ بلقیس کی طرف سے تحفے لے کر گئے تھے جب انہوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم و کمالات ‘ شان نبوت ‘ اخلاق کریمانہ ‘ عظیم سلطنت اور اس میں عدل و انصاف کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ دنگ رہ گئے اور انہوں نے ملکہ بلقیس کو تمام حالات سے مطلع کیا۔ ملکہ بلقیس یہ سب کچھ سن کر اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مکمل اطاعت کا فیصلہ کرلیا اور ملک سبا (یمن) سے فلسطین کے لئے روانہ ہوگئی۔ اسی دوران حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے درباریوں سے کہا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے کہ جو ملکہ بلقیس کے اطاعت و فرماں برداری اختیار کر کے آنے سے پہلے اس کا شاہی تخت (جس پر اسے بڑا ناز ہے) لے کر آجائے۔ شاید اس بات کا مقصد یہ ہوگا کہ اس کا فر اور سورج کو اپنا معبود سمجھنے والی ملکہ کو یہ دکھا دیا جائے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) عام بادشاہوں کی طرح ایک باشاہ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کی طرف سے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں اور ان کو معجزا نہ کام کرنے کی توفیق دی گئی ہے۔ چنانچہ درباریوں میں سے ایک نہایت مضبوط اور قوی جن نے کہا کہ میں اپن اندر ایک ایسی طاقت و قوت رکھتا ہوں کہ نہایت دیانت و امانت کے ساتھ آپ کے اس دربار کے برخاست ہونے پر پہلے لے کر آسکتا ہوں۔ ایک دوسرے شخص یا جن نے کہا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو حاضر کرسکتا ہوں۔ اس شخص کا نام آصف بن برخیا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اجازت دی تو اسی لمحے ملکہ بلقیس کا حسین ترین اور ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تخت ان کے سامنے تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فخر و غرور کرنے کے بجائے فوراً ہی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا یہ سب کچھ میرے اللہ کا فضل و کرم ہے اور اس بات کا امتحان بھی ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں کیونکہ جو شخص اللہ کا شکر ادا کرتا ہی اس کا فائدہ خود اسکو پہنچتا ہے او جو کفر و ناشکری کرتا ہے اس کا نقصان خود اسی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے وہ بےنیاز ذات ہے اور ہر شخص پر رحم و کرم کرنے والا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس تخت کے رنگ و رونغن میں معمولی سی تبدیلی کا حکم دیا تاکہ ملکہ کی ذہانت کا امتحان لیا جاسکے۔ اور یہ معجزہ دکھاکر یہ ثابت کردیا جائے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں جو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملکہ سورج کی عبادت و بندگی کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرے جس نے ان کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوازرکھا ہے۔ جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پوچھا کہ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے ؟ ملکہ حیران ہو کر کہنے لگی کہ ہاں ‘ ہے تو کچھ ایسا ہی۔ کہنے لگی کہ واقعی اللہ نے آپ کو اپنے خصوصی فضل وکرم سے نوازا ہے۔ اور میں تو پہلے ہی آپ کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کا فیصلہ کرچکی ہوں۔ اب سورج کی عبادت و بندگی میرے اس جذبہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتی کیونکہ میں نے ہر سچائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ کو اپنے عالی شان محل میں آنے کی دعوت دی۔ جب وہ محل میں داخل ہوئی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے محل کے اندر پہنچنے کا راستے ایک بہتے ہوئے دریا میں سے گذرتا محسوس ہورہا تھا۔ ملکہ بلقیس نے یہ سوچ کر کہ پانی میں اتر کر دوسری طرف پہنچنا ہے اپنے پائنچے اٹھائے جس سے اس کی پنڈلیاں بھی ظاہر ہوگئیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ پانی نہیں ہے بلکہ خوبصورت فرش ہے تم ایسے ہی آگے آسکتی ہو۔ ملکہ بلقیس نے حکومت و سلطنت اور ان کے محل کی خوبصورتی کو دیکھ کر اس بات کا اچھی طرح اندازہ کرلیا تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ کو کسی دنیاوی لالچ یا غرض سے نہیں بلوایا تھا کیونکہ اللہ نے ان کو اتنا کچھ دے رکھا ہے کہ اس کے سامنے دنیا کا مال و دول کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ بلکہ انہوں نے دین اسلام کو سکھانے اور بتانے کے لئے بلوایا ہے۔ یہ وہ تمام اسباب تھے جن کو سامنے رکھ کر ملکہ بلقیس نے سورج کی پرستش اور عبادت و بندگی سے توبہ کر کے دین اسلام کو قبول کرلیا۔ روایات کے مطابق ملکہ بلقیس اور اس کے تمام لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ بعد میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نکاح ملکہ بلقیس سے ہوا۔ جنہیں حضرت سلیمان نے یمن کے اندر ہی کئی محل بنا کردیئے تھے۔
Top