Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 18
فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَةِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُهٗ١ؕ قَالَ لَهٗ مُوْسٰۤى اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ
فَاَصْبَحَ : پس صبح ہوئی اس کی فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں خَآئِفًا : ڈرتا ہوا يَّتَرَقَّبُ : انتظار کرتا ہوا فَاِذَا الَّذِي : تو ناگہاں وہ جس اسْتَنْصَرَهٗ : اس نے مددمانگی تھی اس سے بِالْاَمْسِ : کل يَسْتَصْرِخُهٗ : وہ (پھر) اس سے فریاد کر رہا ہے قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّكَ : بیشک تو لَغَوِيٌّ : البتہ گمراہ مُّبِيْنٌ : کھلا
پھر وہ صبح ہی صبح حالات کو دیکھتے ہوئے شہر پہنچے تو انہوں نے اچانک دیکھا وہی (اسرائیلی) شخص جس نے گذشۃ کل موسیٰ (علیہ السلام) سے مدد مانگی تھی پھر وہ فریاد کررہا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا بلاشبہ تو کھلا گمراہ ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 18 تا 21 : یترقب (انتظار کرتا ہے۔ دیکھتا بھالتا ہے) استنصر (اس نے مدد مانگی) ‘ الامس (گذشۃ کل) ‘ یستصرخ (فریاد کرتا ہے۔ چلاتا ہے) ‘ غوی (گم راہ) یبطش (وہ پکڑتا ہے) جبار (زبردستی کرنے والا) ‘ اقصا ( دور) ‘ یا تمرون (وہ مشورہ کرتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 18 تا 21 : ظالم و جابر قوموں کا انداز ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اگر ہزاروں آدمی بھی ان کے ظلم وستم کا شکار ہوکر مرجائیں ‘ قتل ‘ ہوجائیں اور تباہ و برباد ہوجائیں تو ان کے نزدیک کوئی خاص بات نہیں ہوتی لیکن اگر ان ظالموں کا ایک آدمی بھی مارا جائے تو اس کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے جیسے ساری انسانیت کا خون ہوگیا ہے۔ چناچہ فرعون جو اپنے اقتدار کی حفاظت کیلئے ظلم و زیادتی کا بازار گرم کئے ہوئے تھا اور ماؤں کی گودیں اجاڑنے اور قتل و غارت گری کرنے میں سب سے آگے تھا جب اس کی قوم کا ایک قبطی مارا گیا تو ایسامعلوم ہورہا تھا جیسے پوری حکومت میں بھونچا ل آگیا ہے۔ ہر طرف اسی کا چرچا تھا کہ ایک قبطی مارا گیا ہے۔ مگر قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو ایک اسرائیلی اور قبطی کے درمیان صلح صفائی کرنے کے لئے آگے بڑھے تھے اور ان کے ایک ہی گھونسے سے قبطی مارا گیا تھا تو اگلے دن صبح کو ایک انجانے خوف سے پریشان شہر کی طرف نکلے۔ آپ نے دیکھا کہ وہی اسرائیلی شخص جس نے گذشتہ کل اپنی مدد کے لئے پکارا تھا وہ کسی دوسرے آدمی سے الجھ رہا ہے۔ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا تو پھر فریاد کی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سمجھ گء کہ یہ جھگڑالو آدمی ہے جو ہر ایک سے لڑتا پھرتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی مدد کرنے کی بجائے اس اسرائیلی کو زبردست ڈانٹ پلائی کہ تو بڑا ہی برا آدمی ہے جو لوگوں سے جھگڑتا پھرتا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اسرائیلی کو اس شخص سے علیحدہ کرنے کے لئے جو ہاتھ بڑھایا تو وہ اسرائیلی کہنے لگا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا تم مجھے اسی طرح قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح گذشتہ کل تم نے ایک قبطی کو قتل کردیا تھا ایسا لگتا ہے کہ تم اس سرزمین پر اپنا زور چلانا چاہتے ہو اور باہمی صلح اور ملاپ کرانا نہیں چاہتے۔ جب اسرائیلی کے منہ سے یہ نکلا تو پورے شہر میں اس کا چرچا ہوگیا کہ گذشتہ کل جس قبطی کا خون ہوا تھا وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کیا تھا۔ بات فرعون تک پہنچ گئی۔ اس نے سارے درباریوں کو جمع کر کے مشورہ کیا ۔ طے پایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بلا کر ان سے اس خون کا بدلہ لیا جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک خیر خواہ جو اس پوری کاروائی کو سن رہا تھا وہ شہر کے دوسرے سرے سے دوڑتا ہوا آیا اور اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) ! فرعون کے دربار میں تمہارے قتل کے منصوبے بن رہے ہیں تم فوراً یہاں سے کہیں دور نکل جائو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو پہلے ہی سے ان حالات کا اندازہ کرچکے تھے۔ وہ اسی خوف کی حالت میں ایک طرف روانہ ہوگئے۔ چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا رخ کس طرف ہے اس لئے اللہ کی بار گاہ میں عرض کیا الہیٰ مجھے ان ظالموں سے بچا لیجئے ( اور سیدھا راستہ عطا فرمادیجئے) ۔ اس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے مدین پہنچ گئے۔ اس واقعہ کی بقیہ تفصیل اگلی آیات میں آرہی ہے۔
Top