Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
اور جب (موسیٰ نے ) مدین کی طرف رخ کیا تو کہا کہ مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ دکھائے گا
لغات القرآن : آیت نمبر 22 تا 25 : توجہ ( متوجہ ہوا۔ اس نے رخ کیا) ‘ تلقاء (طرف۔ سمت) ‘ یسقون ( وہ پانی پلاتے ہیں) ‘ تذودان ( روکے ہوئے) ‘ ماخطبکما ( تم دونوں کا کیا معاملہ ہے) ‘ لانسقی (ہم نہیں پلاتیں) یصدر (واپس لے جاتا ہے۔ لے جاتے ہیں) ‘ الرعائ (راع) چرواہے) ‘ الظل (سایہ) ‘ تمشی (وہ چلتی ہے) تشریح : آیت نمبر 22 تا 25 : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کی ظالمانہ کاروائیوں سے بچنے کے لئے ایک انجانی سی منزل کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہر مشکل کے وقت تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صالحین کا ایک ہی طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے اللہ سے دعاکرکے مدد مانگتے ہیں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بار گاہ رب العالمین میں عرض کیا الٰہی ! مجھے پوری توقع ہے کہ آپ مجھے کسی سیدھے راستے کی طرف ڈال دیں گے۔ اللہ نے ان کا رخ مدین کی طرف پھیر دیا۔ مدین جو کہ فرعون کی سلطنت سے باہرکا علاقہ تھا۔ آپ جب مدین کے کنویں پر پہنچے جہاں بہت سے لوگوں کی بھیڑ جمع تھی اور وہ اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ دو لڑکیاں الگ تھلگ اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ نے ان کی بےچارگی کو دیکھتے ہوئے پوچھا کہ تمہار کیا معاملہ ہے ؟ یعنی تم سب سے الگ تھلگ کیوں کھڑی ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم اس وقت تک اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاسکتیں جب تک یہ سارے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلاکرنکل نہ جائیں۔ کہنے لگیں کہ ہمارے والد بہت بوڑھے اور کمزور ہیں اس لئے ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوان اور طاقت ور تھے انہوں نے آگے بڑھ کر ان لڑکویں کے جانوروں کو پانی پلادیا اور یقیناً ان کے گھر کے لئے پانی بھی دے دیا ہوگا۔ سفر کی شدید تکان اور بھوک پیاس کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بغیر کسی معاوضے کے یہ خدمت سرانجام دی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت مندوں اور کمزوروں کی مدد کرنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ایک سنت ہے۔ جب یہ دونوں لڑکیاں خلاف معمول بہت جلد گھر آگئیں تو ان کے والد حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حیرت سے پوچھا کہ آج اتنی جلدی تم کیسے آگئیں ؟ انہوں نے پورا واقعہ بتایا کہ ایک اجنبی مسافر نے ان کی کس طرح مدد کی۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر رب العالمین سے عرض کرنے لگے کہ الٰہی ! آپ کی عنایتوں کا میں محتاج ہوں میرا پروردگار جو بھی نازل فرمائے گا اس کا میں حاجت مندہوں۔ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یہ پورا واقعہ سنا تو انہوں نے ان دونوں میں سے ایک لڑکی کو بھیجا کہ وہ اس مسافر کو ان کے پاس لے کر آئیں۔ چناچہ وہ شرم وحیا کا پیکر بنی ہوئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچی اور کہا کہ ہمارے والد یہ چاہتے ہیں کہ آپ نے جو ہمارے ساتھ حسن سلوک کیا ہے شاید آپ کو اس کا صلہ دینا چاہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور پورا واقعہ کہہ سنایا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے پورا واقعہ سننے کے بعد فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ اب کسی طرح کا خوف نہ کریں آپ محفوظ جگہ ہیں اور آپ کو اللہ رب العالمین نے اس ظالم قوم سے نجات عطا فرمادی ہے۔ اس واقعہ کا بقیہ حصہ اگلی آیات میں آرہا ہے۔
Top