Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 26
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ١٘ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ
قَالَتْ : بولی وہ اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک يٰٓاَبَتِ : اے میرے باپ اسْتَاْجِرْهُ : اسے ملازم رکھ لو اِنَّ : بیشک خَيْرَ : بہتر مَنِ : جو۔ جسے اسْتَاْجَرْتَ : تم ملازم رکھو الْقَوِيُّ : طاقتور الْاَمِيْنُ : امانت دار
ان دونوں میں سے ایک نہ کہا اے میرے ابان جان ! انہیں (اپنے پاس) ملازم رکھ لیجئے بیشک بہترین ملازم وہ ہے جو طاقت ور اور امانت دارہو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 26 تا 28 : احدی (ایک) یابت (اے میرے ابا جان) ‘ استاجر (اجرت پر رکھ لے) ‘ انکح ( میں نکاح کرتا ہوں) ھتین (یہ دونوں) ثمنی (آٹھ) حجج ( سال۔ برس) اشق (میں مشکل میں ڈالتا ہوں) ایما (جو بھی) الاجلین (اجل) مدتیں ‘ لاعدوان (کوئی جبر یا زبردستی نہ ہو) ‘ وکیل ( گواہ۔ کام بنانے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر 26 تا 28 : جب حضرت موسیٰ مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے گھر پہنچے تو ان کی مہمان نوازی کی گئی۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دونوں بیٹیوں میں سے ایک نے کہا کہ اے ابا جان ! اگر ان کو بکریوں کی دیکھ بھال اور گھر کی حفاظت کے لئے رکھ لیاجائے تو بہتر ہوگا کیونکہ چند دنوں کے تجربہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ ان میں وہ صلاحیت موجود ہے جو کسی محنت پر مقررکئے جانے والے شخص میں ہونی چاہیے یعنی طاقت و قوت اور دیانت وامانت۔ یہی دو باتیں ایسی ہیں جن پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ایک ایسے ہی آدمی کی ضرورت تھی اور حضرت موسیٰ بھی اپنے ٹھکانے کی تلاش میں تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ اگر تم آٹھ سال تک میرے ساتھ رہنے کا وعدہ کرتے ہو تو میں ان دونوں لڑکیوں میں سے کسی ایک کا نکاح تم سے کروں گا۔ لیکن اگر تمآٹھ سال کے بجائے دس سال تک قیام کرو تو یہ متہاری طرف سے ایک نیکی ہوگی۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا کہ میں تیار ہوں لیکن ان دونوں مدتوں میں سے کسی ایک کو پورا کرنا میرے اختیار میں ہوگا میں آٹھ سال تک آپ کی خدمت کروں یا دس سال تک۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) بھی تیارہو گئے اور اس طرح حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بڑی بیٹی جس کا نام توریت میں صفورا آتا ہے ان سے نکاح کردیا۔ اس طرح شعیب (علیہ السلام) کو داماد مل گیا اور ان کے گھر کے کام کاج اور خاص طور پر بکریوں کو چرانے کی خدمات پر بھی معمورہو گئے۔ چند باتوں کی وضاحت پیش ہے جو ان آیتوں کو پوری طرح سمجھنے میں مدد گار ہوں گی۔ (1) علماء نے اس پر بحث کی ہے کہ کیا لڑکی کا مہر خدمت کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ سب باتیں نکاح سے پہلے کی ہیں جیسا کہ ایسے موقعوں پر ابتدائی بات چیت کی جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ شریعت مصطفوی ﷺ میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ خدمت کو مہر قراردے جائے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بکریاں ان لڑکیوں کی ملکیت ہوں جس کا پورا فائدہ ان لڑکیوں کو پہنچتا ہو اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی شریعت میں اس کی اجازت بھی موجود ہو۔ (2) حضرت موسیٰ کو جو خدمت سپرد کی گئی تھی وہ بکریوں کو چرانے اور ان کو پانی پلانے پر تھی اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہے کہ ہر جانور کے گوشت اور قریب رہنے کے پورے پورے اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لئے کسی نبی نے کتے نہیں پالے بلکہ بکریوں کو پالا اور چرایا ہے کیونکہ بکرے اور بکری میں ایک عاجزی اور انکساری موجود ہوتی ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی نے بکریوں کو چرایا ہے چناچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ نے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میں نے بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط (اس زمانہ کا سکہ) کی مزدوری پرچرائی ہیں “ (بخاری شریف) (3) حضرت موسیٰ نے ابتدا میں تو یہ کہہ دیا تھا کہ آٹھ سال یا دس سال دونوں مدتوں میں سے کسی ایک مدت کو پورا کرنے میں مجھے اختیار حاصل ہوگا ۔ لیکن معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے پورے دس سال تک حضرت شیعب (علیہ السلام) اور ان کے گھرانے کی خدمات سرانجام دی تھیں۔ (4) دس سال تک حضرت موسیٰ کا حضرت شعیب ؐ کی خدمت کرنا ممکن ہے قدرت کے نظام کا یہ حصہ ہو کہ اللہ نے حضرت شعیب ؐ کو ان کی تعلیم و تربیت پر مقرر فرمایا ہو۔ کیونکہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچے ہیں تو قرآن کریم کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ان کی عمر مباک تیس سال کی تھی اور جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس مصر تشریف لے جارہے ہیں تو ان کی عمر مبارک چالیس کی ہوگئی تھی ۔ اسی عمر میں آپ کو وادی مقدس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بنایا اور آپ کو معجزات دیئے گئے۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگیوں میں یہ بھی ا کی مشابہت ہے کہ کس طرح نبی کریم ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نعمت نبوت و رسالت سے نوازا گیا تھا اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی چالیس سال کی عمر میں نبی اور رسول بنایا گیا تھا اور اس طرح نبوت و رسالت سے پہلے ان کے ذہن و فکر کی تربیت حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ذمے فرمائی گئی ہو۔ (5) ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب بھی فریقین میں کوئی معاہدہ ہو تو وہ بالکل صاف ستھرا اور واضح طریقہ پر ہونا چاہیے تاکہ آگے چل کر مسائل پیدانہ ہوں اسی لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی صاف صاف بات فرمائی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب بھی واضح تھا کہ میں آٹھ سال خدمت کروں یا دس سال مجھے کسی مدت پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ البتہ میں پوری دیانت و امانت سے اپنا کام کروں گا۔
Top