Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ : بیشک قَارُوْنَ : قارون كَانَ : تھا مِنْ : سے قَوْمِ مُوْسٰي : موسیٰ کی قوم فَبَغٰى : سو اس نے زیادتی کی عَلَيْهِمْ : ان پر وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے تھے اس کو مِنَ الْكُنُوْزِ : خزانے مَآ اِنَّ : اتنے کہ مَفَاتِحَهٗ : اس کی کنجیاں لَتَنُوْٓاُ : بھاری ہوتیں بِالْعُصْبَةِ : ایک جماعت پر اُولِي الْقُوَّةِ : زور آور اِذْ قَالَ : جب کہا لَهٗ : اس کو قَوْمُهٗ : اس کی قوم لَا تَفْرَحْ : نہ خوش ہو (نہ اترا) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْفَرِحِيْنَ : خوش ہونے (اترانے) والے
بیشک قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا۔ اس نے سر کشی اختیار کی۔ ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور لوگوں کی جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ جب قارون کی قوم نے اس سے کہا کہ تو (اپنی دولت پر) اترایا مت کر۔ کیونکہ اللہ کو وہ لوگ پسند نہیں ہیں جو اترایا کرتے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 76 تا 78 ) ۔ بغی (اس نے زیادتی کی) ۔ الکنوز (کنز) (خزانے) ۔ مفاتیح (مفتاح) (چابیاں۔ کنجیاں) ۔ تنوء (بھاری ہوئیں) ۔ العصبتہ (جماعت) ۔ لا تفرح (مت اترا ۔ مت اکڑ) ۔ لاتنس (تومت بھول ) ۔ نصیب (حصہ) ۔ احسن (بھلائی کر ۔ نیکی کر ) ۔ لا تبغ (تلاش نہ کر) ۔ ذنوب (ذنب) (گناہ ۔ خطائیں) ۔ تشریح : آیت (76 تا 78 ) ۔ ” مال و دولت اور تجارت اگر اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اصولوں اور طریقوں کے مطابق حاصل کرکے اس کو صرف کیا جائے یا جمع کیا جائے تو وہ ہر ایک کے لئے خیر و برکت اور سلامتی کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے مجبور و بےکس بندوں کی مدد پر خرچ کیا جائے تو وہ دنیا اور آخرت میں کامیابی اور نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے۔ قرآن کریم میں مال کو خیر اور تجارت کو اللہ کا فضل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بر خلاف اگر مال و دولت، ظلم و زیادتی اور ناجائز طریقوں سے کمائی جائے اور اس کو اپنی محنت، علم اور قابلیت کا نتیجہ سمجھ کر فخر و غرور اور تکبر کا اندازا ختیار کیا جائے اور اس دھن دولت پر سانپ بن کر بیٹھا جائے نہ اللہ کا حق ادا کرے اور نہ بندوں کا تو یہی دھن، دولت اس کی دنیا اجاڑنے اور آخرت کی بربادی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ قرآن کریم میں ایسے مال و دولت کو ” کنز “ (خزانہ) فرمایا گیا ہے۔ آپ نے سورة القصص کی گذشتہ آیات میں پڑھا ہے کہ جب کفار مکہ کے سامنے نبی کریم ﷺ دین اسلام کی دعوت پیش کر کے ان کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے پکارتے تو وہ یہ عذر پیش کرتے تھے کہ اگر ہم نے دین اسلام کو قبول کرلیا تو اس سے ہمارے گھر بار، کاروبار، دھن، دولت سب کے سب اچک لئے جائیں گے اور ہمارا اس زمین پر رہنا مشکل ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کا واقعہ سنا کر عبرت دلائی ہے کہ قارون کے پاس دولت کے انبار تھے۔ اس کی ظاہری چمک دمک دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی آجاتا تھا اور وہ اس کی تمنا کرتے ہوئے کہتے تھے کہ کاش یہی مال و دولت ہمیں بھی مل جاتاتو ہم بھی قارون کی طرح عیش و آرام کی زندگی گذارتے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس کے کفر و شرک، نافرمانیوں اور غرور وتکبر کی وجہ سے قارون، اس کے ساتھیوں اور اس کے تمام خزانوں کو زمین میں دھنسا دیا تب لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو ہم بھی قارون کے ساتھ زمین میں دھنسا دیئے جاتے۔ مفسرین نے قرآن کریم اور مختلف روایات کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ قارون بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور توریت کا حافظ تھا۔ چونکہ وہ نبی اسرائیل کا باغی تھا تو فرعون کے دربار میں اس کو عزت کا ایک خاص مقام حاصل تھا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کی نگرانی ان کے اندرونی حالات کی جاسوسی، ہر طرح کے ظلم و ستم اور دیکھ بھال پر اسے اپنا نمائندہ مقرر کر رکھا تھا اس لئے اس نے نہایت چالاکی سے ہر طرف سے دولت سمیٹنا شروع کردی اور وہ غیر معمولی دولت کا مالک بن گیا جس کے خزانوں کی چابیاں ہی اتنی زیادہ تھیں کہ ایک مضبوط جماعت بھی انہیں مشکل سے اٹھاسکتی تھی۔ فرعون کی تباہی کے بعد قارون بنی اسرائیل کے ساتھ لگا رہا ۔ چناچہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ستر منتخب آدمیوں کو لے کر کوہ طور تشریف لے گئے تو قارون بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ قارون کو اس کی دولت کی کثرت، فرعوں کے قرب اور خوشامدیوں کی بھیڑ نے ضرورت سے زیادہ غرور وتکبر کا پتلہ بنا دیا تھا اور وہ اپنے سوا سب کو حقیرو ذلیل سمجھتا تھا۔ چناچہ جب قوم کے کچھ سمجھ دار لوگوں نے اس سے یہ کہا کہ تو اس مال و دولت پر مت اترا کیونکہ اللہ کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں۔ اللہ نے تجھے جو کچھ دیا ہے اس سے آخرت میں گھر بنانے کی فکر کر۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ تو دنیا کی راحتوں کو چھوڑ دے۔ ان سے فائدہ حاصل کر اور جس طرح اللہ نے تیرے اوپر فضل کیا ہے تو بھی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کر۔ اور اپنی دولت کے بل بوتے پر دنیا میں فساد مت پھیلا کیونکہ اللہ کو فساد کرنے والے ناپسند ہیں۔ قارون نے ان نصیحتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے جو کچھ ملا ہے وہ میری محنت، قابلیت اور علم کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اس کے پاس علم تھا تو اس کے علم نے اسے یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس سے پہلے بہت سی قوموں کو اللہ نے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کردیا تھا جو اس سے بھی زیادہ طاقت وقوت اور لوگوں کی بھیڑرکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب لوگ گناہ پر گناہ کرتے چلے جائیں اور توبہ نہ کریں تو وہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں یا نہ کریں اللہ جب ان کو پکڑتا ہے تو ان سے پوچھ کر نہیں پکڑتا بلکہ وہ اپنے فیصلے کو اچانک نافذ کردیتا ہے۔ قارون کے واقعہ کی بقنہ تفصیل اس کے بعد کی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔
Top