Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
تِلْكَ : یہ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخرت کا گھر نَجْعَلُهَا : ہم کرتے ہیں اسے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو لَا يُرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے عُلُوًّا : برتری فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا فَسَادًا : نہ فساد وَالْعَاقِبَةُ : اور انجام (نیک) لِلْمُتَّقِيْنَ : اور انجام (نیک)
یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کو دیتے ہیں جو زمین میں تکبر نہیں کرتے اور فساد نہیں کرتے۔ اور بہتر انجام ان ہی لوگوں کا ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر (83 تا 88 ) ۔ علو (بڑائی ۔ برتری) ۔ العاقبتہ (انجام۔ نتیجہ) ۔ فرض (فرض کردیا۔ لازم کردیا) ۔ راد (وہ لوٹ گیا) ۔ معاد (لوٹنے کی جگہ ) ۔ لا یصدن (وہ ہرگز نہ روکیں گے) ۔ ھالک (ہلاک ہونے والا) ۔ وجہ (چہرہ۔ ذات) ۔ تشریح : آیت نمبر (83 تا 88 ) ۔ ” سورة القصص میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو عبرت و نصیحت کے لئے تفصیل سے بیان کرنے کے بعد بنی اسرائیل ہیہ کے ایک فرد قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو اپنی دولت کی کثرت، خوشامدیوں کی بھیڑ اور فخر و غرور کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر الزام لگانے سے باز نہیں آیا تو اللہ نے اس کو اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ اس کی دولت اور اس کے آگے پیچھے دوڑنے بھاگنے والے لوگ بھی اس کی مدد کر کے اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے۔ مکہ کے وہ کافر جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہم نے اپنے باپ دادا کے مذہب کو چھوڑ کر دین اسلام قبول کرلیا تو عرب کے لوگ ہمارا جینا دوبھر کردیں گے اور ہمیں اپنے بال بچوں، گھر بار اور مال و دولت سے محروم کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کا واقعہ سنا کر بتا دیا کہ قارون کے پاس بےپناہ اور بےحساب دولت تھی جس کے خزانوں کی چابیاں ہی طاقت ور جماعتیں اٹھانے سے قاصر تھیں جب اس پر اللہ کا عذاب آیا اور زمین میں دھنسا دیا گیا تو اس کی دولت اور اس کے لوگ اس کے کام نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کا دھن و دولت ‘ چمک دمک ‘ زیب وزینت اور رونقیں سب عارضی اور وقتی چیزیں ہیں جو موت کے ساتھ ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ اس کے برخلاف آخرت کا گھر یعنی جنت ‘ اس کا سکون ‘ راحت و رآام ہمیشہ کے لئے ہے۔ لیکن اس آخرت کے گھر کے مستحق وہی لوگ ہوتے ہیں جو زمین پر اپنی برائی قائم کرنے کے خواہش مند نہیں ہوتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں۔ غرور وتکبر سے بچتے ہیں اور زمین پر فساد نہیں مچاتے۔ اللہ سے ڈرنے والوں کا انجام ہی بہترین انجام ہوتا ہے۔ اللہ کا قانون اور دوستور یہ ہے کہ جو آدمی نیکی اور بھلائی لے کر آخرت میں پہنچے گا وہ اس کی نیکی کا اجر اور بدلہ اس سے بہتر عطا فرمائے گا جو اس نے کی ہوگی۔ لیکن جو لوگ گناہوں کے ڈھیر لے کر پہنچیں گے تو ان کو ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا انہوں نے کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! جس ذات نے آپ کو قرآن کریم جیسی عظیم کتاب دی ہے تاکہ آپ اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچا کر ان کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کردیں تو وہی اللہ آپ کو اس مقام تک پہنچائے گا جہاں ان کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے مراد جنت اور اس کی راحتیں بھی ہیں اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی وہ سرزمین جس میں اہل ایمان پر مکہ کی زمین کو تنگ کردیا گیا تھا اس میں نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو عزت و عظمت کے ساتھ کامیاب وبامراد کرکے واپس لایا جائے گا۔ بہر حال بتایا یہ جارہا ہے کہ دنیا ہو یا آخرت کی ابدی راحتیں وہ سب کی سب اہل ایمان کو عطا کی جائیں گی۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کون ہدایت اور سیدھے راستے پر ہے اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ سورۃ القصص کی آیات کو اس مضمون پر مکمل فرمایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ کو اس بات کی امید تک نہ تھی کہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آپ پر نازل کی جائے گی یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل وکرم ہے جس نے آپ کو قرآن کریم جیسی شان دار اور با عظمت کتاب عطا فرمادی ہے۔ اب آپ کی اور آپ کی امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ (1) آپ کسی طرح کفار کے مدد گار نہ بنیں۔ (2) جب قرآن کریم نازل کردیا گیا ہے تو آپ اسکی پابندی کیجئے اور لوگوں کو اس قرآن مجید کی طرف بلایئے۔ (3) کفار و مشرکین (کی زیادتیوں) کا خیال چھوڑ دیجئے۔ (4) اللہ کی ہستی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکاریئے کیونکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور سوائے اللہ کی ذات کے کسی چیز کو بقا نہیں ہے۔ (5) سارے فیصلوں کا اختیار اسی کا ہے۔ (6) اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ الحمد للہ سورة القصص کی آیات کا ترجمہ و تفسیر و تشریح تکمیل تک پہنچی واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
Top