Baseerat-e-Quran - Al-Ankaboot : 28
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ١٘ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : (یاد کرو) جب قَالَ : اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم کو اِنَّكُمْ : بیشک لَتَاْتُوْنَ : تم کرتے ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی مَا سَبَقَكُمْ : نہیں پہلے کیا تم نے بِهَا : اس کو مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو (نبی بنا کر) بھیجا۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسے بےحیائی کے کام کرتے ہو جو تم سے پہلے ساری دنیا میں کسی نے نہیں کئے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 28 تا 35 : لتاتون ( البتہ تم لاتے ہو) ماسبق (پہلے نہیں کیا) تقطعون ( تم کاٹتے ہو) ‘ نادی (محفلیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 28 تا 35 : اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ جب کبھی کسی شہر ‘ علاقے یا ملک کے کچھ لوگ کچھ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی حرکتوں پر ان کو سزا دے دی جاتی ہے لیکن جب پوری قوم کفر و شرک ‘ بےحیائی ‘ بےشرمی ‘ بےغیرتی ‘ زنا اور بدکاریوں میں اس طرح لگ جاتی ہے کہ شرم وحیا کے بجائے کھلم کھلا نجی اور عام محفلوں میں گناہ کرنے کو فیشن بنا لیاجاتا ہے اور خیر و شر کا ہر تصور مٹ کر رہ جاتا ہے تو پھر اس قوم کی طرف اللہ کا عذاب متوجہ ہوجاتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) سدوم اور عمورہ کی جن بستیوں کی اصلاح کے لئے پیغمبر بنا بھیجے گئے تھے وہاں لوگوں کا یہ حال تھا کہ وہ غیر فطری فعل کو کھلم کھلا اس طرح کرتے تھے کہ اس کیخلاف بات کرنے اور کسی نصیحت کو سننے کے لئے تیار نہ تھے چناچہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے اس پوری قوم کو للکارا کہ تم نے ایک ایسے فعل کو رواج دیا ہے جو آج تک دنیا میں کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ تم اپنی نفسان خواہشات کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے بد فعلی کرتے ہو۔ تمہاری شیطانی حرکتوں سے ہر شخص عاجز آچکا ہے۔ لوگوں کے لئے راستہ چلنا دشوار ہوگیا ‘ چوری ‘ ڈاکہ اور لوٹ مار سے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں رہی۔ تم کھلے عام بےشرمی اور بےحیائی کے کام کرتے ہو۔ تمہاری گفتگو اور بات چیت میں شائستگی اور تہذیب دم توڑچ کی ہے۔ اگر تم نے اللہ سے توبہ نہ کی اور اس فعل سے بازنہ آئے تو جس طرح تم سے پہلی امتوں پر اللہ کا عذاب آیا تھا اسی طرح تم پر بھی اللہ کا قہر ٹوٹ پڑے گا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی تمام نصیحتوں کا پہلے تو مذاق اڑانا شروع کیا پھر دھمکیوں پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ اے لوط ! اگر تم نے اپنی ان نصیحتوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو ہم تمہیں اس بستی سے نکال باہر کریں گے۔ اور جس عذاب کی تم بات کرتے ہو اگر تم سچے ہو تو اس کو لے آئو۔ قوم لوط کے ساتھ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی انتہائی نافرمان اور اپنی قوم کی حمایت میں سب سے آگے آگے تھی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی قوم کی بےحسی ‘ بےغیرتی اور دھمکیوں کے باوجود دن رات سمجھاتے رہے مگر وہ قوم نہ سمجھی نہ سنبھلی اور اپنی شہوت پرستی میں لگی رہی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جب بالکل مایوس ہوگئے تو انہوں نے بار گاہ الہی میں یہ درخواست پیش کردی کہ اے اللہ ! یہ لوگ فساد اور تباہی پر تلے بیٹھے ہیں اور میری کسی بات کو نہیں سنتے نہ میری اطاعت کرتے ہیں۔ اس قوم کا مزاج ہی ظالمانہ اور مفسدانہ بن کر رہ گیا ہے ان کا فیصلہ فرمادیجئے اور میری مدد فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمالیا اور اس قوم کو ان کی نافرمانیوں کی سزادینے کا فیصلہ فرمالیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتوں کو خوبصورت لڑکوں کی شکل میں بھیجا۔ یہ فرشتے سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ایک بیٹے کی خوش خبری دینے کے لئے آئے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوش خبری تھی۔ جب یہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اجنبی مہمان سمجھ کر ان کی خاطر تواضع فرمائی اور ایک بھنا ہوا بچھڑا لا کر انکے سامنے رکھ دیا مگر انہوں نے کھانے سے انکار کردیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کچھ پریشان سے ہوگئے کیونکہ اس زمانہ میں کھانے سے انکار کاملطب یہ ہوتا تھا کہ یہ دوست نہیں بلکہ اس کا دشمن ہے اور اس کے ارادے صحیح نہیں ہیں۔ حضرت ابراہیم ؐ کی پریشانی کو دیکھ کر ان فرشتوں نے کہا کہ دراصل ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو آپ کو اولاد کی خوش خبری دینے اور قوم لوط کو برباد کرنے آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قوم لوط کی بربادی کی اس اطلاع سے سخت افسوس ہوا۔ افسردہ ہو کر فرمایا کہ وہاں تو لوط (علیہ السلام) بھی ہیں جو اللہ کے نبی اور سچے دین پر چلنے والے ہیں۔ فرشتوں نے کہا ہمیں معلوم ہے کہ وہاں کون کون ہیں لیکن اللہ کا یہ فیصلہ اس نافرمان قوم کیلئے ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ( ان کی بیوی کے سوا) ان کے تمام گھر والوں کو بچا لیا جائے گا۔ یہ فرشتے جو خوبصورت لڑکوں کی شکل میں بھیجے گئے تھے وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور کہا کہ ہم آپ کے ہاں مہمان کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو اپنے گھر ٹھہرا تو لیا مگر وہ اس بات سے فکر مند ہوگئے کہ اگر ان کی قوم کے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ کچھ خوبصورت نوجوان میرے گھر آئے ہیں تو کہیں وہ بدکار لوگ کوئی ایسی بات نہ کر بیٹھیں جس سے ان کو شرمندگی ہوجائے کیونکہ آپ اپنی قوم کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے چناچہ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے سب کو بتادیا کہ ان کے گھر کچھ خوبصورت نوجوان لڑکے آئے ہوئے ہیں۔ پوری قوم کے لوگ دوڑ پڑے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اس صورتحال سے گھبرا گئے کیونکہ ان بد کرداروں کا مطالبہ تھا کہ ان نوجوانوں کو ان کے حوالے کردیا جائے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی کو دیکھ کر فرشتوں نے اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آپ مت گبھرائیے۔ ہم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے ہیں۔ یہ ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ نے اس بد کردار قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آپ صبح ہوتے ہی اپنی بیوی کے سوا سب گھروالوں کو لے کر اس شہر سے نکل جائیے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھئے۔ چناچہ حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں روانہ ہوگئے اور ان کی بیوی وہیں رہ گئیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے جاتے ہی صبح کو ایک زبردست چنگھاڑ سنائی دی جس سے سننے والوں کے دلوں کی دھڑکنیں بند ہوگئیں پھر ان پر زبردست پتھروں کی بارش کردی گئی اور اس پوری آبادی کو اوپر اٹھا کر نیچے کی طرف الٹ دیا گیا۔ ان بستیوں پر سمندر کا پانی چڑھ دوڑا اور اس طرح نہ صرف سدوم اور عامورہ کی بستیاں تباہ و برباد کردی گئیں اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا بلکہ ان بستیوں پر سمندر کا پانی چڑھ آنے سے پوری آبادی ڈوب گئی اور ان کی جگہ ایک ایسا سمندر بن گیا جس میں آج تک کوئی جانور بھی زندہ نہیں رہتا اسی لئے اس کو بحیرہ مردار کہتے ہیں۔ تباہی اور زلزلے کے اثرات سے یہ علاقہ سطح سمندر سے چار سو میٹر نیچے چلا گیا ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کو سزادے کر عقل و بصیرت رکھنے والوں کے لئے اس جگہ کو نشان عبرت و نصیحت بنادیا ہے۔
Top