Baseerat-e-Quran - Al-Ankaboot : 36
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ۙ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَ : اور اِلٰى مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب کو فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَارْجُوا : اور امید وار رہو الْيَوْمَ الْاٰخِرَ : آخرت کا دن وَ : اور لَا تَعْثَوْا : نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے (مچاتے)
اور مدین والوں کے پاس ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا۔ پھر انہوں نے کہا اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت و بندگی کرو۔ اور قیامت کے دن سے ڈرو۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔
لغات القرآن آیت نمبر (36 تا 40) ۔ لا تعثوا (تم نہ پھرو) ۔ الرجفتہ (زلزلہ۔ بھونچال) ۔ جثمین (اوندھے پڑے ہوئے) ۔ مستبصرین (سمجھ رکھنے والے) ۔ سبقین (آگے نکلنے والے) ۔ حاصبا (پتھروں کی بارش) ۔ الصیحتہ (چنگھاڑ۔ تیز آواز) ۔ تشریح : آیت نمبر (36 تا 40) ۔ ” حضرت شعیب (علیہ السلام) ، ہود (علیہ السلام) اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی زندگی اور دین اسلام کی سر بلندی کے لئے ان کو کوششوں اور جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمائی اور وہ نافرمان جن کو اپنی حکومت و سلطنت، مال و دولت اور بلند وبالا عمارتوں پر بڑا ناز تھا جب ان کی نافرمانیاں حد سے گذر گئیں تو دنیا کی یہ تمام طاقتیں اور قوتیں ان کو عذاب الہی سے نہ نچا سکیں۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو قوم مدین کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا گیا تھا جو تجارتی بددیانتیوں، مظلوموں پر ظلم و ستم اور خیرو شر کے ہر فرق کو بھول کر اپنی بد اعمالیوں، نافرمانیوں اور بد مستیوں میں مگن تھے۔ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت و بندگی کو چھوڑ کر لکڑی، مٹی اور پتھرکے بتوں کے سامنے اپنی محترم پیشانی کو نہ جھکائیں کیونکہ انسان ان سے کتنی ہی امیدیں وابستہ کرلے یہ دنیا اور آخرت میں ان کے کام نہ آئیں گے بلکہ آخرت میں ان کے یہ بت اور من گھڑت معبود ان سے نفرت کا اظہار کریں گے اور کہہ دیں گے کہ ہم نے ان کو اپنی عبادت و بندگی پر مجبور نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی ہمیں اپنا معبود بنائے ہوئے تھے۔ اس وقت اللہ کا عذاب ان کے سامنے ہوگا اور ہر باطل سہارا ٹوٹ چکا ہوگا اس وقت ان کی حسرتوں کا کیا حال ہوگا ؟ لہذا وہ آخرت کی فکر کریں جہاں کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اللہ کی زمین کو اپنی بداعمالیوں کے فساد سے تباہ نہ کریں کیونکہ اللہ کو فساد کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔ اس قوم کا سب سے بڑافساد یہ تھا کہ وہ معاملات کے لین دین میں شدید بد دیانتی کیا کرتے تھے۔ کم تولنا، کم ماپنا، بےایمانی، دھوکے بازی، چوری، ڈاکہ اور دوسروں پر ظلم و زیادتی ان کا مزاج بن چکا تھا۔ وہ نادان اور جاہل نہیں تھے بلکہ نہایت سمجھ دار عقل مند لوگ تھے مال و دولت کمانے اور بلند وبالا اور خوبصورت بلڈنگیں بنانے کے فن سے خوب واقف تھے مگر ان کی بد قسمتی یہ تھی کہ جن لوگوں نے مال و دولت کمانے اور معیارزندگی کے بلند کرنے کے راز معلوم کر لئے تھے، دنیا اور آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کے بھید کو معلوم نہ کرسکے۔ لیکن حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کے لوگوں کو ہر طرح کی نافرمانیوں سے بچنے کی تلقین کرتے رہے اور اپنے عظیم خطبات سے لوگوں کے دلوں کو گرماتے رہے مگر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ اے شعیب ہمیں تو تمہاری عظیم صلاحیتوں سے بڑی امیدیں تھیں مگر تم نے ہمارے ہی معبودوں اور رسم و رواج کر برا کہنا شروع کردیا۔ ہم تمہاری کسی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جب اس قوم کی نافرمانیاں اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی لائی ہوئی تعلیمات کو جھٹلانے کی انتہاء ہوگئی تب اللہ نے ان پر اپنا عذاب نازل کیا وہ لوگ رات کو سوئے تو زبردست طوفان سے ان کے دلوں کی دھڑکنیں بند ہوگئیں اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے وہ گئے ۔ ان کے خوبصورت اور بلندو بلا مکانات اور ان کے مال و دولت ان کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے۔ اللہ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی بات مان کر ایمان کا راستہ اختیار کرنے والوں کو نجات عطا فرما دی ۔ قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دونوں قومیں جود نیاوی ترقیات میں بہت آگے تھیں ان کو بھی ان کی طافرمانیوں نے تباہی کے کنارے پہنچا کر چھوڑا۔ احقاف، یمن اور حضر موت تک یہ قوم عاد کی آبادی تھی اور رابغ سے عقبہ تک، اور مدینہ منورہ، خیبر، تیما اور تبوک تک کا علاقہ ایک آباد اور ترقی یافتہ علاقہ تھا جس کے کھنڈرات اور ٹوٹی پھوٹی بستیوں کے آثار اور نشانات مکہ والواں کے سامنے تھے جو ان راستوں سے گذرتے ہوئے ان بستیوں کو دیکھتے تھے جو آج عبرت و نصیحت کا نمونہ ہیں۔ فرمایا کہ یہ لوگ وہ تھے جن کے برے اعمال کو شیطان نے ان کی نظروں میں بہت زیادہ قیمتی اور خوبصورت بنا کر پیش کیا ہوا تھا۔ یہ نہایت عقل مند اور سمجھ دار قومیں تھیں مگر دین کے بارے میں نہایت جاہلانہ طرز اختیار کئے ہوئے تھے۔ ان کے مال و دولت نے ان کو سچائی سے روکا ہوا تھا۔ جب حضرت ہود (علیہ السلام) نے قوم عاد کو اور حضرت صالح نے قوم ثمود کو ان کے برے اعمال کے برے نتائج سے ڈرایا اور آگاہ کیا تو ان کو قوموں نے ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی لائی ہوئی تعلیمات کا انکار کیا اور وہ مسلسل اپنی نافرمانیوں پر ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے تب ان ترقی یافتہ قوموں پر اللہ کا شدید ترین عذاب آگیا۔ قوم عاد پر مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک شدید ترین طوفانی ہواؤں نے ان کی پوری تہذیب اور ترقی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ قوم ثمود جو اس زمانہ میں بیس بیس منزلہ بلڈنگیں تعمیر کیا کرتے تھے اور دولت کی ریل پیل تھی ان کو بھی زبردست چنگھاڑ نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے وزیر ہامان کا ذکر فرمایا۔ وہ فرعون جس نے اللہ کا بھلا کر اپنے ” الہ “ ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اس کو اپنی مضبوط سلطنت اور فوج پر بڑا ناز تھا۔ اللہ نے اس کو سمندر میں غرق کردیا۔ قارون جس کے خزانواں کا یہ حال تھا کہ اس کے خزانوں کی چابیاں ہی اتنی زیادہ تھیں کہ ان کو ایک مضبوط اور طاقت ور جماعت بھی نہ اٹھا سکتی تھی۔ جب اس نے غرور وتکبر کی انتہا کو دی تو اللہ نے اس کو، اس کے ساتھیوں کو اور اس کے زبردست خزانوں کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کا جب فیصلہ آجاتا ہے تو پھر اس کی طاقت و قوت کے سامنے کسی کی طاقت و قوت کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اس نے کسی قوم کو تیز آندھی سے، کسی کو ہیبت ناک آواز سے تہس نہس کردیا کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو پانی کے طوفان میں غرق کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگوں کے برے اعمال ہیں جو ان کو تباہی کے کنارے پہنچادیتے ہیں۔ ہم کسی فراد اور قوم پر ظلم و زیادتی نہیں کرتے۔ کیونکہ اللہ نے اسی کائنات میں قوانین مقررکئے ہوئے ہیں جو بھی ان کو مانتا ہے اور ان کے مطابق چلتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے لیکن جو بھی اس کے بنائے ہوئے قوانین سے ٹکراتا ہے اس کو اللہ کی طرف سے مقرر کی ہوئی سزا مل کر رہتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا نافرمان اور مجرم خود ہی اپنی جان پر ظلم کرتا ہے کیونکہ وہ قوانین الہی کو توڑتا ہے اور جان بوجھ کر قانون شکنی کرتا ہے تو اس کو سزا دی جاتی ہے اللہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے بندوں کو سنبھلنے، سوچنے اور صحیح راستے پر چلنے کا زیادہ سے زیادہ وقت دیتا ہے۔ جب کوئی اپنی انتہاؤں سے گذر جاتا ہے تو پھر اللہ اس کے لئے اپنے قوانین کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے جس کے لئے کائنات کی ساری قوتیں مل کر بھی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتیں۔ ان آیات میں اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے اور مکہ کے کفار کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ان کے پاس کافی مہلت موجود ہے اگر وہ فائدہ اٹھا کر نبی کریم ﷺ پر ایمان لے آئے تو ان کا انجام بہتر ہوگا ورنہ ان کا انجام بھی گذشتہ قوموں سے مختلف نہیں ہوگا ۔
Top