Baseerat-e-Quran - Al-Ankaboot : 56
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ
يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے اِنَّ : بیشک اَرْضِيْ : میری زمین وَاسِعَةٌ : وسیع فَاِيَّايَ : پس میری ہی فَاعْبُدُوْنِ : پس تم عبادت کرو
اے میرے بندو ! جو ایمان لائے ہو بیشک میری زمین وسیع ہے۔ پس تم میری ہی عبادت و بندگی کرو۔
لغات القرآن آیت نمبر (56 تا 60) ۔ ارضی (میری زمین) ۔ واسعتہ (وسیع۔ پھیلی ہوئی) ۔ ذائقتہ (چکھنے والی) ۔ نبوء ن (ہم ضرور ٹھکا نا دیں گے) ۔ غرف (کمرہ۔ بالا خانہ) ۔ نعم اجر (بہترین بدلہ) ۔ کاین (کتنے ہی۔ بہت سے) ۔ دابتہ (جانور۔ جان دار) ۔ لا تحمل (نہیں اٹھاتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر (56 تا 60) ۔ ” اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہے کہ ہزاروں لاکھوں انسان ہر روز پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ انسان زندگی گذارنے کے لئے ایک گھر بنا کر اپنے بیوی، بچوں اور گھر والوں کے ساتھ رہتا بستا ہے۔ کنبہ، خاندان اور برادری کے تعلقات بنتے چلے جاتے ہیں۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی عمر گذار کر آخر کار موت کی آغوش میں جا کر سو جاتا ہے۔ رشتہ داریاں اور تعلقات اسی دنیا کی زندگی تک محدود ہوتے ہیں۔ موت کے ساتھ ہی تمام رشتے منقطع ہوجاتے ہیں۔ یہ موتو حیات کا سلسلہ ابتدائے کائنات سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ کوئی شخص اور اس کی بنائی ہوئی چیزیں ہمیشہ نہیں رہتیں۔ البتہ اس دنیا میں ہمیشہ کی زندگی صرف ان خوش نصیبوں کو ملتی ہے جو دین اسلام کی سر بلندی اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنی جان اللہ کے راستے میں قربان کردیتے ہیں۔ اگرچہ وہ موت کے دروازے سے گذر کر آخرت میں پہنچتے ہیں۔ لیکن ان کی موت کو وہ عظمت حاصل ہوتی ہے جہاں ان کو ” مردہ “ تک کہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کو حیات برزخی حاصل ہوتی ہے جس میں ان کو اللہ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور وہ اسی میں مگن رہتے ہیں۔ اسی لئے ایک مومن موت سے نہیں ڈرتا بلکہ وہ اس ہمت و جرات کا پیکر ہوتا ہے۔ جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ بیوی، بچے، خاندان، ملک، وطن اور اپنی جان سے زیادہ اس کو اپنے ایمان کی سلامتی کی فکر رہتی ہے۔ وہ اپنے ایمانی تقاضوں کے سامنے دنیا کے ہر تقاضے کو قربان کرنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو ایمان، عمل صالح اور ایثار و قربانی کا پیکر ہوتے ہیں۔ اے میرے بندہ ! کہہ کر خطاب فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ اے مومنو ! دین اسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے تم پر زمین کو تمہارے لئے وسیع اور کشادہ کردیا ہے۔ وہ دنیا میں کسی بھی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں ان کے دین اور ایمان کی حفاظت ہو سکتی ہو۔ فرمایا کہ اگر تم نے اپنے ایمان کی حفاظت کے مقابلے میں اپنے گھر بار، بیوی بچوں، مال و جائیداد اور ملک و وطن کو اہمیت دی اور اس دائرہ سے نکلنے کی جدوجہد نہ کی تو ایسے لوگ یاد رکھیں کہ موت کا مزہ ہر شخص کو چکھنا ہے۔ موت کے ساتھ ہی یہ تمام رشتے اور تعلق ختم ہوجائیں گے۔ لیکن اگر وہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کو جنت کے اونچے اونچے مکانوں میں بسایا جائے گا۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور جو لوگ ایمان، عمل صالح، صبر اور اللہ پر توکل والے ہیں یہ جنتیں ان کا انعام ہوں گی۔ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرتے وقت جب ان کو سب کچھ ان سے چھوٹ جائے گا تو وہ اس کی فکر نہ کریں کہ ان کا اور ان کے بچوں کا گذر بسر کیسے ہوگا کیونکہ رزق دینے والا وہ اللہ ہے جس کے ہاتھ میں کائنات کے تمام وسائل اور ذرائع ہیں وہ ہر ایک کے رزق کا ذمہ دار ہے۔ ایک محسوس مثال سے سمجھایا ہے کہ ایسے لوگ ان چرند، پرند، درند اور کیڑے مکوڑوں کو دیکھیں کہ جب صبح کو وہ اٹھتے ہیں اور اپنے اپنے ٹھاکانوں سے روانہ ہو کر رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں تو وہ بھی شام کو پیٹ بھرے واپس لوٹتے ہیں۔ کیا وہ لوگ جو اللہ کہ راہ میں تکلیفیں اٹھاکر اپنا سب کچھ قربان کر کے اس کی راہوں میں نکلیں گے کیا وہ مہربان اللہ ان کو بھوکوں ماردے گا۔ اللہ جو سب کا رازق ہے وہ سب کا پیٹ بھرتا ہے اور کسی کو بھوکا نہیں سلاتا۔ وہ اللہ سب کی فریاد سنتا ہے اور ہر ایک کے معاملات سے اچھی طرح واقف ہے۔ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد ” صحابہ کرام ؓ “ جن کو مکہ مکرمہ میں طرح طرح کے ظلم و ستم کر کے ان پر مکہ کی سر زمین کو تنگ کردیا گیا تھا، اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے حبش کی طرف ہجرت کرنا شروع کردی تھی۔ جب نبی کریم ﷺ اس کے حکم سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرماگئے تو وہ صحابہ کرام ؓ جو ملک حبش کی طرف ہجرت کر گئے تھے آہستہ آہستہ مدینہ منورہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے ۔ اور اس طرح وہ تمام اہل ایمان جنہوں نے اللہ کی رضاو خوشنودی اور رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا ان کو مدینہ منورہ میں ٹھکا نا مل گیا اور مدنیہ منورہ میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑگئی اور پھر وہی ریاست ایک ایسی عظیم سلطنت بن گئی جس کے سائے میں ساری دنیا نے امن و سکون اور محبت و اخوت کا درس سیکھا۔ یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ اس کی راہ میں ایثار و قربانی کرنے والے صحابہ کرام ؓ کو جنت میں کتنے بلند مقامات اور عظمتیں عطا کی جائیں گی لیکن تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ان اہل ایمان نے قرآن و سنت پر عمل کر کے اپنے حسن اخلاق سے ساری دنیا کے اندھیرے دور کردیئے تھے۔ اور دنیا کو محبت، پیار، ایثار، قربانی اور امن و سلامتی کا جنتی نمونہ بنادیا تھا۔ آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا ۔ آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
Top