Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تمہاری موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 102 تا 109 حق تقٰته (اس سے ڈرنے کا حق ادا کرکے) اعتصموا (تم مضبوط تھام لو) بحبل اللہ (اللہ کی رسی ، یعنی اللہ کے دین کو (مضبوط تھام لو) جمیع (سب کے سب اکٹھے ہوکر) لاتفرقوا (تم جداجدا نہ ہو) اعداء (آپس میں دشمن ) الف (اس نے محبت ڈال دی) اصبحتم (تم گئے) اخوان (بھائی بھائی) شفاء (کنارہ) حفرۃ (گڑھا) انقذ (اس نے بچالیا) ولتکن (ہونی چاہیے) امة (ایک جماعت) یدعون (بلاتے ہیں، دعوت دیتے ہیں) بالمعروف (نیکی کے ساتھ) ینھون (وہ روکتے ہیں) المنکر (برائی غلط راستہ) تبیض (سفید، چمک دار) وجوہ (چہرے (وجه کی جمع ہے) تسود (سیاہ) اکفرتم (کیا تم نے کفر کیا ؟ ) دوقوا (تم چکھو) ابیضت (سفید، چمک دار ہوگئے) تشریح : آیت نمبر 102 تا 109 اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ تم اللہ سے اس طرح ڈرو کہ اس کے ڈرنے کا حق ادا ہوجائے پھر تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دراصل تقوی اسلام اور ایمان کی روح ہے۔ تقوی و پرہیز گاری کے بغیر اسلامی خصوصیات اور پاکیزہ ایمانی زندگی کا پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں تقوی اختیار کرنے حکم دیا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ اے اہل ایمان تمہارے تقوی اور پرہیز گاری کا انجام یہ ہونا چاہئے کہ تمہاری موت صرف دین اسلام کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے آئے۔ آگے دوسری آیت میں مسلمانوں کو اپنی اجتماعی قوت کو قائم کرنے کا ایک زریں اصول بتایا گیا ہے کہ تقوی کے ساتھ ساتھ اپنی اجتماعی زندگی کی قوت بھی ناقابل تسخیر بنائی جائے۔ یہی اتحاد واتفاق امت مسلمہ کی زندگی کے تمام سیاسی ، معاشی، سماجی اور اخلاقی مسائل کے حل میں کامیاب کرسکتا ہے۔ قرآن کریم جہاں اس دنیا کی کامیابی کا ضامن ہے وہیں آخرت کی فلاح و کامیابی کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے ہی میں ان کی اجتماعی نجات ہے۔ اگر انتشار کا راستہ اختیار کیا گیا تو پھر مسلمان دور جہالت کی طرف لوٹ جائیں گے جس میں عرب والے مبتلا تھے۔ قبائل کی باہمی دشمنیاں ، ذرا ذرا سی باتوں پر خون خرابہ ، جنگ ، جدال ، غارت گری، ماردھاڑ پھر اوپر سے کفر وشرک اور بت پرستی کی گندگیاں ، عقائد میں خرابیاں پورا عرب اسی ایک آگ میں جل رہا تھا۔ اس آگ میں جل رہا تھا۔ اس آگ کے گڑھوں سے بچا کر لانے والا یہ اسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ یہی وہ نعمت ہے جس نے ان کو باہمی عداوت کی آگ میں جلنے سے بچالیا اور اسلام کی طرف رغبت دلائی۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ایک انسان اپنی انفرادی زندگی میں تو اللہ کا خوف یعنی تقوی اختیار کرے اور اپنی اجتماعی زندگی میں اتحاد واتفاق کی فضا کو قائم رکھے۔ لیکن انفرادی ، اور اجتماعی ، قومی اور ملی صلاح و فلاح اور اتحاد واتفاق اور اسلامی محبت کے رشتوں کو قائم ودائم رکھنے کے لئے ضرورت ہے کہ اہل ایمان میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جس کا کام ہی لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانا اور برائیوں سے روکنا اور ایمان پر قائم رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس سے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک خاص قسم کا نکھار پیدا ہوگا اور ایسا معاشرہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکے گا۔ آخر میں اللہ نے یہ بات بتادی کہ قیامت کے دن بھی وہی کامیاب ہوں گے جن کے اعمال بہتر ہوں گے ورنہ ان کے چہروں پر ایسی پھٹکار ہوگی کہ اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ فرمایا کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود راہ مستقیم چھوڑ کر گمراہی کے راستوں کو اختیار کرکے اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔
Top