Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 118
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا١ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ١ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ۖۚ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ١ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والو) لَا تَتَّخِذُوْا : نہ بناؤ بِطَانَةً : دوست (رازدار) مِّنْ : سے دُوْنِكُمْ : سوائے۔ اپنے لَا يَاْلُوْنَكُمْ : وہ کمی نہیں کرتے خَبَالًا : خرابی وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں مَا : کہ عَنِتُّمْ : تم تکلیف پاؤ قَدْ بَدَتِ : البتہ ظاہر ہوچکی الْبَغْضَآءُ : دشمنی مِنْ : سے اَفْوَاهِھِمْ : ان کے منہ وَمَا : اور جو تُخْفِيْ : چھپا ہوا صُدُوْرُھُمْ : ان کے سینے اَكْبَرُ : بڑا قَدْ بَيَّنَّا : ہم نے کھول کر بیان کردیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : آیات اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْقِلُوْنَ : عقل رکھتے
اے ایمان والو ! اپنوں کے سوا دوسروں کو اپنا گہرا جگری دوست نہ بناؤ۔ وہ تمہاری بد خواہی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ جس چیز سے تمہیں اذیت اور نقصان پہنچے وہ بات ان کے نزدیک انتہائی پسندیدہ ہے۔ ان کا بغض وعناد ان کے منہ سے ظاہر ہے۔ اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے صاف صاف نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں اگر تم عقل و فکر سے کام لینے والے ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 118 تا 120 لاتتخذوا (تم نہ بناؤ) بطانة (رازدار) من دونکم (اپنوں کے علاوہ) لایالون (وہ کمی نہ کریں گے) خبال (برائی ، بربادی) ودوا (وہ پسند کرتے ہیں) عنتم (جو تمہیں بھاری ہے، جو کچھ تم پر سختی ہے) بدت (ظاہر ہوگیا، ظاہر ہو پڑتا ہے) البغضاء (منہ (فوہ، منہ) ماتخفی (جو کچھ چھپاتا ہے) اکبر (بہت زیادہ ہے) عضوا (انہوں نے کاٹا (وہ کاٹتے ہیں) الانامل (انگلیاں) الغیظ (غصہ) موتوا (تم مرجاؤ) ذات الصدور (دلوں والا (وہ دلوں کا حال جانتا ہے) ان تمسسکم (اگر تمہیں پہنچے) تسوء (برامعلوم ہوتا ہے برالگتا ہے) سیئة (وہ خوش ہوتے ہیں) لایضرکم (وہ تمہیں نقصان نہ پہنچائیں گے) کید (فریب) ۔ تشریح : آیت نمبر 118 تا 1120 اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان ہی کے ساتھ نہیں بلکہ ہر انسان کے ساتھ ہمدردی ، مروت ، عہد کی پابندی اور اچھے اخلاق کا معاملہ کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتادیا گیا کہ مسلمانوں کی اپنی تنظیم اور ان کے محض شعائر کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ دن اسلام کے منکروں اور باغیوں سے تعلقات ایک خاص حد تک رکھے جائیں کیونکہ اس سے فرد اور ملت دونوں کے لئے شدید تقصانات کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر ایک مسلمان دوسرے کافر سے محض تعلقات کی بناء پر راز کی باتیں بتا دے گا تو کفار مسلمانوں کی بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ خواہ وہ یہودی ہوں یا نصاری یا منافق یہ سب کے سب مسلمانوں اور ان کے مفادات کے سخت دشمن ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں یہ بات نقل کی گئی ہے کہ اسلام سے پہلے جن مسلمانوں کے یہودیوں سے ہمسائیگی وغیرہ کی بناء پر دوستانہ تعلقات تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی قائم تھے۔ ان یہودیوں کی دوستی پر اعتماد کرتے ہوئے مسلمان انہیں بعض راز دارانہ باتیں بھی بتا دیا کرتے تھے۔ منافقین کے بارے میں یہ دشواری تھی کہ وہ مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے اور عام مسلمان ان کو مسلمان ہی سمجھتے تھے اس لئے ان سے احتیاط نہ برتتے ہوئے راز کی باتیں بتادیا کرتے تھے ان آیات میں ان ہی لوگوں سے ہوشیار رہنے کے لئے فرمایا گیا کہ اگر تم نے ان یہودیوں اور منافقین پر اعتماد کرکے ان کو راز دار بنالیا تو وہ تمہاری اور اسلام کی دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ لہٰذا ان کو کسی طرح اپنا راز دار نہ بناؤ۔ وہ تمہارے بدخواہ ہیں وہ تمہیں کسی اچھی حالت میں دیکھنا گوارا نہیں کرسکتے اور اگر تم نے صبر وتقوی اختیار کیا تو ان کی چالیں بیکارہوکر رہ جائیں گی کیونکہ اللہ ان پر ہر طرح غالب ہے۔
Top