Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے نبی ﷺ ! وہ وقت یاد کیجئے ، جب آپ صبح سویرے اپنے گھر سے نکل کر (میدان احد میں ) مسلمانوں کو مورچوں پر بٹھا رہے تھے۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 121 تا 129 غدوت (تو صبح کے وقت نکلا) اھلک (تیرے گھر والے) تبوئ (تو جگہ (مورچوں پر) بٹھارہا تھا) مقاعد للقتال (لڑائی کے ٹھکانے (مورچے) ھمت (ارادہ کیا) طائفتین (دونوں جماعتیں) تفشلا (وہ دونوں بزدلی دکھائیں) ولیھما (اللہ ان دونوں کا دوست ہے) فلیتوکل (پھر بھروسہ کرنا چاہیے) اذلة (کمزرر، خوار) الن یکفیکم (کیا تمہیں کافی نہیں ہوگا) ان یمدکم (یہ کہ تمہاری مدد کی جائے) ثلٰثة اٰلاف (تین ہزار) منزلین (اترنے والے) حمسة اٰلافٍ (پانچ ہزار) مسومین (نشان لگے ہوئے (پلے ہوئے) بشرٰی (خوش خبری) لتطمئن (تاکہ تمہیں اطمینان ہو) یقطع (تاکہ کٹ جائے) یکبت (ذلیل کردیتا ہے) ینقلبوا (وہ پلٹ جائیں) خائبین (ذلیل (ہوکر) من الامر (اختیار سے) ۔ تشریح : آیت نمبر 121 تا 129 گذشتہ آیات میں فرمایا گیا تھا کہ اگر تم صبر تقویٰ اختیار کرو گے تو کفار کی تمام فریب کاریاں اور چالاکیاں تمہیں نقصان نہ پہنچاسکیں گی۔ لیکن تم نے صبر وتقویٰ میں ذرا بھی کوتاہی کی یقیناً کفار کی چالیں تمہیں نقصان پہنچادیں گی۔ اس کے لئے بطور مثال فرمایا گیا کہ دیکھو کچھ زیادہ دور کی بات نہیں ہے غزوۂ احد اور غزوۂ بدر کے واقعات اس حقیقت پر گواہ ہیں۔ غزوۂ بدر جہاں کفار بڑی تعداد تھی اور مسلمان بےسروسامان تھے وہاں صبر کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک ایسا غلبہ حاصل ہوا کہ کفر کے ایوانوں میں زلزلے آگئے لیکن غزوۂ احد میں ظاہری شکست کے اسباب یہ ہیں کہ وہاں چند لوگوں میں صبر وتقویٰ میں ذرا کمی آئی تو تمہیں دشمنان اسلام کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر صبر سے کام لیا جاتا اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی پوری طرح پابندی کی کا تی تو یقیناً غزوۂ احد میں اتنے زبردست نقصانات نہ اٹھانا پڑتے۔
Top