Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! سود کو دگنا چوگنا کر کے نہ کھاؤ ۔ اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ فلاح و کامیابی حاصل کرسکو۔
لغات القرآن آیت نمبر 130 تا 138 اضعافاً (دوگنا) مضاعفة (دوگنے سے بھی زیادہ) سارعوا (تم دوڑو) عرضھا (اس کا پھیلاؤ) السرآء (خوشی، راحت) الضراء (تکالیف، پریشانیاں) الکاظمین (برداشت کرنے والے، پی جانے والے) العافین (معاف کردینے والے) فاحشة (بےحیائی) ظلموا انفسھم (اپنے نفسوں پر ظلم و زیادتی کی) لم یصروا (ضد نہیں کرتے) علیٰ مافعلوا (اس پر جو انہوں نے کیا) نعم (بہترین) اجرالعٰلمین (کام کرنے والوں کا بدلہ) سنن (طریقے) سیروا (تم چلوپھرو) عاقبة (انجام) بیان (وضاحت) ۔ تشریح : آیت نمبر 130 تا 138 گذشتہ آیات میں اللہ نے فرمایا کہ صبر وتقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور جب بھی صبر وتقویٰ کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے گا تو وہ اللہ کی رحمتوں سے دور ہوجائیں گے۔ ان آیات میں پہلی بات تو یہ فرمائی گئی ہے کہ صبر وتقویٰ کیا ہے اور صابرومتقی کون لوگ ہیں اور ان کے کیا کیا اوصاف ہیں۔ دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو تقویٰ اور پرہیزگاری کے ماحول کو تباہ کردیتے ہیں۔ فرمایا کہ کسی معاشرہ کی تباہی کا سب سے پہلا بڑا سبب سودی کاروبار ہے۔ جب تک اس سے بجات حاصل نہیں کی جائے گی اس وقت تک تقویٰ اور پرہیز گاری کی فضا قائم ہونا مشکل ہے کیونکہ حلال روزی تقویٰ کی جڑ اور بنیاد ہے۔ جو شخص سود کھانے والا ہوگا اس میں صبر وتقویٰ کی کیفیت پیدا ہی نہیں ہوسکتی اس لئے فرمایا گیا کہ صبر وتقویٰ کے لئے بنیاد ترک سود ہے۔ اور سود بھی وہ جو کہ سارے معاشرے اور مجبورلوگوں کو عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے۔ یوں تو سود کا کچھ بھی نال رکھ لیا جائے ، اس کی کوئی بھی شکل ہو چنددر چند ہو یا نہ ہو۔ مہاجن کا سود ہو یا بینک کا سود بہرحال مطلقاً حرام ہے۔ لیکن وہ سود جو چنددرچند ہو وہ تو انسانی نقطہ نظر سے بھی انتہائی ذلیل چیز ہے جس سے پچنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ یہودیوں کی ذلیل اور گھٹیا ذہنیت کا ایک بنیادی سبب سود خوری بھی ہے لہٰذا اہل ایمان کو اس سے پچنے کی ہر ممکن تدبیر کرنا چاہیے ۔ ان آیات میں فرمایا گیا کہ ہر صاحب ایمان کو اللہ اور اس کے رسول کی مکمل پیروی کرنا چاہیے اسی میں آخرت کی وہ کامیابی ہے جو اس کے لئے جنت کی ابدی راحتوں کی شکل میں اسے عطا کی جائے گی۔ اصل دین یہ نہیں ہے کہ سود در سود کے چکر میں پھنسا رہے بلکہ اپنے سے کمزوروں پر رحم کرنے کے لئے دن رات اپنی دولت کو نچھاور کرتا رہے خواہ حالات کچھ بھی کیوں نہ ہوں۔ فرمایا گیا کہ غصہ کو پی جانے والے دوسروں کی خطائیں معاف کردینے والے کوئی خطا ہوجائے تو اس پر ندامت کا اظہار کرنے والے اللہ کو بہت پسند ہیں اور یہی کامیاب اور بامراد لوگ ہیں۔
Top