Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 178
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْ١ؕ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
وَلَا : اور نہ يَحْسَبَنَّ : ہرگز نہ گمان کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا اَنَّمَا : یہ کہ نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں خَيْرٌ : بہتر لِّاَنْفُسِھِمْ : ان کے لیے اِنَّمَا : درحقیقت نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھ جائیں اِثْمًا : گناہ وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّهِيْنٌ : ذلیل کرنے والا
یہ کافر اس ڈھیل کو، جو انہیں ہماری طرف سے دی جارہی ہے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں۔ ہم تو انہیں یہ مہلت اس لئے دے رہے ہیں تا کہ وہ خوب گناہ کے بوجھ سمیٹ لیں۔ پھر ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 178 تا 180 نملی (ہم ڈھیل دیتے ہیں) لیزدادوا (تاکہ وہ بڑھ جائیں) لیذر (البتہ وہ چھوڑے) حتی یمیز (جب تک وہ جدا نہ کردے) الخبیث (گندگی) الطیب (پاکیزگی) لیطلعکم (تاکہ وہ تمہیں بتادے) یجتبی (وہ منتخب کرتا ہے) یبخلون (وہ کنجوسی کرتے ہیں) سیطوقون (عنقریب وہ طوق پہنائے جائیں گے) میراث (ملکیت) ۔ تشریح : آیت نمبر 178 تا 180 کفار اپنی عیش و عشرت کی زندگی پر فخر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جب ہم اس دنیا میں اس قدر عیش و آرام کے ساتھ ہٰن تو آخرت میں بھی ہم اس سے زیادہ راحت و آرام میں ہوں گے۔ اگر اللہ ہم سے ناراض ہوتا تو کیا ہمیں یہ عیش و آرام نصیب ہوتا یقیناً اللہ ہم سے بہت خوش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دنیاوی عیش و عشرت اللہ کے خوش ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ تو ان کے لئے ڈھیل ہے جو اس نے ان کفار کو دے رکھی ہے۔ اس سے ان کو یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ اللہ نے ان کو یہ مہلت اس لئے دے رکھی ہے تاکہ وہ اپنے کفر اور جرم میں خوب آگے بڑھ جائیں اور گناہوں میں خوب ترقی کرتے چلے جائیں تب ایک دن اللہ ان کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔ جس سے بچنا ممکن ہی نہ ہوگا۔ وہ کفار سمجھتے ہیں کہ ہم بڑی عزت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں حالانکہ ان کے لئے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب تیار ہے۔ تاکہ ان کو پوری پوری سزا مل سکے۔ وہ عذاب ان کو دنیا میں بھی مل سکتا ہے اور آخرت میں بھی۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مسلمانوں پر غزوۂ احد میں جو مصائب اور مشکلات پیش آئی ہیں اس میں بھی بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ کیونکہ اب بھی مسلمانوں کی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن حالات کی شدت انکے دلی جذبات کو کھول کر رکھ دیگی۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے لئے یہ بہت آسان تھا کہ وہ منافقوں کے نام بتاکر مسلمانوں سے انکو علیحدہ کرادیتا لیکن اس کی حکمت ومصلحت کا تقاضا تھا کہ وہ ایسے حالات پیدا کردے جس سے کھرا اور کھوٹا کھل کر سامنے آجائے۔ ان آیتوں میں اہل ایمان کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ وہ مشکلات سے نہ گھبرائیں بلکہ ان مشکلات میں ڈالے جانے کی بہت سی مصلحتیں ہیں کیونکہ منافق کبھی بھی مشکلات میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ وہ تو دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے مومنوں میں شامل ہوا ہے۔ اگر اس کے مفاد پر ضرب پڑے گی تو وہ کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ نہ رہے گا۔ لہٰذا فرمایا گیا ہے کہ یہ حالات اس لئے لائے گئے تاکہ ایک پاک طینت اور ایک بدباطن کھل کر سامنے آجائے ۔ فرمایا گیا کہ اگر ایمان پر قائم رہے اور اللہ کا تقوی اختیار کئے رہے تو دنیا وآخرت میں تمہارے لئے بہت زیادہ اجر وثواب ہے۔ ان آیتوں میں تیسری بات یہ فرمائی گئی کہ یہ منافقین جس طرح اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے بھاگتے ہیں اسی طرح اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے ساے بھی جی چراتے ہیں لیکن جس طرح جہاد سے بچ کر دنیا کی چند روزہ زندگی کی مہلت حاصل کرنا ان کے حق میں کچھ بہتر نہیں ہے ایسے کنجوسی اختیار کرکے بہت سا مال اکٹھا کرلینے میں بھی ان کے لئے کوئی فائدہ مند بات نہیں ہے۔ اگر بالفرض دنیا میں کوئی مصیبت پیش نہ آئی تو قیامت کے دن یقیناً یہ جمع کیا ہوا مال جو کنجوسی سے جمع کیا گیا تھا عذاب کی صورت میں ان کے گلے کا ہار بن کررہے گا لہٰذا وقتی مفادات میں زندگی گذارنا کسی کے لئے بھی مفید نہیں ہے۔
Top