بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی ﷺ ! آپ اللہ سے ڈرتے رہیے۔ اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مانئے۔ بیشک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر ( ا تا 3) ۔ اتق (توڈر۔ تقویٰ اختیار کر) ۔ لا تطع (پیچھے نہ چل۔ اطاعت نہ کر) ۔ اتبع (تو پیروی کر۔ کہنا مان) ۔ یو حی (وحی کی گئی) ۔ توکل (بھروسہ کر۔ توکل کر) ۔ وکیل (کام بنانے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر (1 تا 3) ۔ ” حضرت آدم (علیہ السلام) سے نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک جتنے بھی نبی اور رسول آئے ہیں وہ سب کے سب معصوم ہیں۔ وہ اللہ کی نگرانی میں ہوتے ہیں نہ تو وہ گناہ کرتے ہیں نہ ان سے گناہ کا ارتکاب ممکن ہے بلکہ ان کی طرف گناہ کی نسبت کرنا بھی گناہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کو پوری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ گواہ ہے کہ آپ نے تقویٰ اور خوف الہی کے ساتھ زندگی گذاری ہے۔ لیکن پھر بھی ارشاد فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ صرف اللہ سے ڈرئیے اور کفار و مشرکین کی کوئی بات نہ مانئے جو کچھ اللہ کے احکامات آپ پر وحی کئے جا رہے ہیں ان کی اتباع کیجئے۔ اسی ایک اللہ کی ذات پر بھروسہ کیجئے جو ہر طرح با خبر ہے اور سب کا مشکل کشا ہے۔ اس حکم کا ظاہری مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کے واسطے سے قیامت تک آنے والی امت کے ہر فرد کو بتایا جا رہا ہے کہ (1) اللہ کے سوانہ کسی سے ڈرا جائے نہ دبا جائے کیونکہ ایک اللہ سے ڈرنا ہی انسانی زندگی کی کامیاب بنیاد ہے۔ (2) دوسری بات یہ فرمائی کہ کافروں اور منافقوں کی کسی بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ہر کام میں ان کی بد نیتی اور سازش شامل ہوتی ہے لہٰذا ان کی ہر حرکت سے ہوشیار رہ کر ان کی کسی بات کی اتباع اور پیروی نہ کی جائے۔ نہ ان کے مشوروں پر عمل کیا جائے ۔ نہ مشوروں میں شامل کیا جائے۔ (3) تیسری بات یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ جتنے احکامات عطا فرمائے ہیں ان کی ہر حال میں پیروی کی جائے تاکہ ہر ایک کی دنیا اور آخرت سدھر سکے۔ (4) چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ ہر ایک کو اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ، اعتماد اور توکل کرنا چاہیے کیونکہ صرف ایک اللہ کی ذات ہی قابل اعتماد ہے۔ (5) پانچویں بات یہ فرمائی کہ انسان کے بگڑے ہوئے کاموں کو بنانے والا مشکل کشا صرف اللہ ہے اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں ہے۔ ان باتوں سے اس بات کا اندازہ لاگانا مشکل نہیں ہے کہ کفار، مشرکین اور منافقین سے رواداری تو برتی جائے لیکن ان کو اپنے کاموں اور مشوروں میں شریک نہ کیا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ شرارت سے کوئی ایسی تجویز پیش کردیں جس سے مسلمانوں کی زندگی تباہی کے کنارے تک پہنچ جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے جب بھی کفارو مشرکین کو اپنا مخلص سمجھ کر ان کو اپنے معاملات میں شریک کیا ہے انہوں نے غلط مشورے دے کر ملت کا شیرازہ بکھیر نے میں کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یہ کفار و مشرکین اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے خیر خواہ بن کر آتے ہیں۔ جس طرح شیطان ایک مخلص دوست کی شکل میں آیا اور اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) کو غلط مشورہ دے کر جنت سے نکلوادیا تھا۔ تاریخ کے صفحات پر موجود ہے کہ سلطنت عثمانیہ جو ایک عظیم سپر پاور تھی۔ اس سلطنت کو تباہ کرنے کے لئے کفارو منافقین نے انسانیت، محبت اور خلوص کا بھیس بدل کر پوری سلطنت کو غلط راستے پر لگا دیا تھا۔ لارنس آف عربیہ نے تو بائیس سال تک مسلمانوں کے بھیس میں سلطنت عثمانیہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ لہذا کفار و منافقین کو اہم اور بنیادی مشوروں میں قریب نہ آنے دیا جائے نہ ان کی کسی بات کو تسلیم کیا جائے۔ یہی خیر اور سلامتی کا راستہ ہے۔
Top