Baseerat-e-Quran - Al-Ahzaab : 21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
لَقَدْ كَانَ : البتہ ہے یقینا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْ : میں رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُسْوَةٌ : مثال (نمونہ) حَسَنَةٌ : اچھا بہترین لِّمَنْ : اس کے لیے جو كَانَ يَرْجُوا : امید رکھتا ہے اللّٰهَ : اللہ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ : اور روز آخرت وَذَكَرَ اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کرتا ہے كَثِيْرًا : کثرت سے
یقیناً اللہ کے رسول ( حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں ہر اس شخص کے لئے بہترین نمونہ عمل موجود ہے جو اللہ پر ، آخرت کے دن پر امید اور توقع رکھتا ہے ۔ اور اللہ کو خوب کثرت سے یاد کرتا ہے ۔
لغات القرآن : آیت نمبر 21 تا 27 اسوۃ : نمونہ یرجوا : امید رکھتا ہے تسلیم : فرمانبرداری ۔ اطاعت قضی : پورا کرلیا نحب : منت۔ نذر۔ مدت غیظ : غصہ صیاصی : قلعے۔ پناہ کی جگہ قذف : ڈال دیا الرعب : دہشت۔ ہیبت تاسرون : تم قیدی بناتے ہو اورث : اس نے مالک بنا دیا لم تطئوا : انہوں نے نہیں روندا تشریح : آیت نمبر 21 تا 27 بعض لوگ دنیاوی مفادات کی وجہ سے مسلمان بن کر عام مسلمانوں میں جلے رہتے ہیں چونکہ وہ دنیا دکھاوے کو مسلمان ہوگئے تھے مگر ان کے دل ایمانی جذبوں سے محروم تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے منافقین کے تمام کاموں اور اعمال کو ضائع کردیا تھا اور آخرت میں نجات بھی حاصل نہ کرسکیں گے۔ ایسے لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد زیر مطالعہ آیات میں نبی کریم ﷺ کی زندگی کو بہترین نمونہ عمل بتایا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر انداز اور سیرت و کردار کا ہر پہلو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے رہبر و رہنما ہے لیکن آپ کی زندگی سے صرف وہی فائدے حاصل کرسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور آخرت پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور دن ارات اللہ کا ذکر بڑی کثرت سے کرتے ہیں۔ غزوہ خندق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے اس دہشت ناک ماحول میں جب کہ کفار مسلمانوں کو مٹانے کے لئے اپنی ساری طاقت جھونک دی تھی اور چاروں طرف سے حملے کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے تھے آپ نے ان حالات کا جس ہمت و جرات ، استقلال اور بےخوفی سے مقابلہ کیا تھا وہ اہل ایمان اور ساری دنیا کے لوگوں کے لئے ایک بہترین نمونہ زندگی ہے ۔ غزوہ خندق کے موقع پر ایک طرف تو وہ اہل ایمان تھے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و محبت میں اپنا سب کچھ قربان کردینے کو اپنی سعادت سمجھ رہے تھے دوسری طرف وہ بزدل منافقین تھے جو اتحادی فوجوں کی کثرت اور بنو قریظہ کی غداری اور عہد شکنی کی وجہ سے سخت پریشان اور مایوس تھے اور کہنے لگے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے تو ہم سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے عہد شکنی کی وجہ سے سخت پریشان اور مایوس تھے اور کہنے لگے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے تو ہم سے بڑے بڑے وعدے کئے تھے کہ اگر انہوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا تو ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں گی ساری دنیا پر انہیں فتح و نصرت عطا کی جائے گی اور قیصر و کسری کے محل اور خزانے ان کے قدموں تلے ہوں گے مگر اس وقت تو ہمارا یہ حال ہے کہ مدینہ منورہ کی اس چھوٹی سی ریاست کو ختم کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بڑے زبردست لشکروں کے ساتھ کفار نے مدینہ پر چڑ ھائی کردی ہے جن سے اپنی جان بچانا مشکل نظر آرہا ہے اور اندرونی طور پر بنو قریظہ کی شورش ، بغاوت اور غداری کی وجہ سے ان کی بیوی بچے تک محفوظ نہیں رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ آئو لوٹ چلیں تاکہ اس آفت سے نجات حاصل کرسکیں۔ اس کے برخلاف عزم و ہمت کے پیکر صحابہ کرام ؓ جنہوں نے حضور اکرم ﷺ کے فیض صحبت سے جرات و ہمت اور بےخوفی کا سبق سیکھ لیا تھا انہوں نے کفار کی اس یلغار اور اتحادی فوجوں کی کثرت کو دیکھا تو ساری حقیقت سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ دین کی راہوں میں چلنے والے ہر شخص کو سخت آزمائشوں اور امتحانات سے گذرنا ہوگا۔ مصائب اور مشکلات کے کانٹوں سے الجھنا ہوگا اور ہر طرح کی قربانیاں دینا ہوگی تاکہ وہ اللہ کی رحمتوں کے مستحق بن کر دنیا اور آخرت کی ہر طرح کی کامیابیاں حاصل کرسکیں۔ کفار کی فوجی کثرت اور ان کی جنگی تیاریوں سے خوف کرنے کے بجائے وہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت میں پورے عزم و یقین کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرنے کے لئے بےچین ہوگئے اور پنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ فرمایا نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثاروں کی زندگی بہتر ین نمونہ عمل ہے۔ زیر مطالعہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کی زندگی کو ہر اس شخص کے لئے بہترین نمونہ زندگی اور نمونہ عمل بنایا ہے جو اللہ کی ذات وصفات پر ایمان لا کر آخرت میں نجات اور کامیابی کی امید اور توقع رکھتا ہے اور دن رات کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جاں نثاران مصطفیٰ ﷺ کے عزم و ہمت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ جب اہل ایمان (صحابہ کرام ؓ نے مدینہ پر بڑے بڑے لشکروں کو حملہ آور دیکھا تو انہوں نے گھبرانے اور مایوس ہونے کے بجائے کہا کہ یہی تو وعدہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہم سے کیا تھا ۔ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا کہ دین کی راہوں میں انہیں ہر طرح کی آزمائشوں سے گذرنا ہوگا ۔ ان لشکروں کی کثرت نے ان کے جذبہ ایمانی اور اطاعت و فرماں برداری میں اضافہ کردیا۔ فرمایا کہ ان ہی لوگوں میں وہ صاحبان ایمان بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آخرت کی کامیابیاں حاصل کرلیں اور کچھ لوگ ابھی اس انتظار میں ہیں کہ اگر ان کو موقع ملا تو وہ بھی اپنے جان و مال کی قربانی کی سعادت حاصل کریں گے ۔ ان کی ہمت و جرات یا یہ حال ہے کہ حالات کی سختی اور کفار کی یلٖغار سے مایوس نہیں ہوئے اور نہ انہوں نے اپنے کسی روئیے میں تبدیلی کی۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ان کی سچائی کا نعام عطا فرفائیں گے۔ جہاں تک منافقین کا معاملہ ہے تو اللہ کی مرضی پر ہے چاہے تو ان کو عذاب دے یا ان کو تو بہ کی توفیق دے کر معاف فرما دے۔ اللہ تو اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے میں بہت زیادہ مہربان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ غزوہ احزاب میں کفار کے لشکروں کی کثرت اور اسلحہ کے ڈھیران کے کسی کام نہ آسکے۔ حالات اور موسم کی سختی سے تنگ آکر جلتے پٹختے میدان جنگ سے بھاگ جانے پر مجبور ہوگئے اور جو بھی فائدے سوچ کر آئے تھے ان میں سے ایک فائدہ بھی حاصل نہ کرسکے بلکہ اس سے ان کو یہ زبردست نقصان پہنچا کہ وہ ساری دنیا میں ذلیل ور سوا ہو کر رہ گئے اور اہل ایمان کو مٹانے کے بجائے انہوں نے خود اپنے مٹنے کا سامان کرلیا۔ واقعی ساری طاقت وقوت صرف اللہ ہی کی ہے اور وہی اہل ایمان کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ بنو قریظہ کی غداری اور معادہ شکنی کے متعلق فرمایا کہ اہل کتاب (بنو قریظہ) میں سے جنہوں نے ان کفار و مشرکین کی مدد کی تھی ان کو نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ اپنے مضبوط قلعوں سے نیچے آنا پڑا۔ اللہ نے ان کے دلوں میں اہل ایمان کی ایسی ہیبت اور دہشت بٹھادی تھی کہ آج وہ ان میں سے ایک گروہ کو قتل کررہے ہیں اور بعض لوگوں کو قید کررہے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ نے تمہیں ان کی زمینون ، گھروں ، جائیدادوں اور مال دولت کا مالک بنادیا ہے اور اب اللہ نے فیصلہ فرما لیا ہے کہ تمہیں اس سرزمین (خیبر وغیرہ ) کا بھی مالک بنادیا جائے جہاں تم نے ابھی تک قدم بھی نہیں رکھا ۔ فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوگا جو ساری طاقتوں اور قوتوں کا مالک ہے۔
Top