Baseerat-e-Quran - Faatir : 11
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا١ؕ وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ١ؕ وَ مَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖۤ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
وَاللّٰهُ : اور اللہ خَلَقَكُمْ : اس نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ جَعَلَكُمْ : پھر اس نے تمہیں بنایا اَزْوَاجًا ۭ : جوڑے جوڑے وَمَا : اور نہ تَحْمِلُ : حاملہ ہوتی ہے مِنْ اُنْثٰى : کوئی عورت وَلَا تَضَعُ : اور نہ وہ جنتی ہے اِلَّا : مگر بِعِلْمِهٖ ۭ : اس کے علم میں سے وَمَا : اور نہیں يُعَمَّرُ : عمر پاتا مِنْ مُّعَمَّرٍ : کوئی بڑی عمر والا وَّلَا يُنْقَصُ : اور نہ کمی کی جاتی ہے مِنْ عُمُرِهٖٓ : اس کی عمر سے اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ ۭ : کتاب میں اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : آسان
اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنا دیا۔ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ کوئی عورت کسی بچے کو جنم دیتی ہے مگر یہ کہ وہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی بڑی عمر پاتا ہے یا کسی کی عمر میں کمی کی جاتی ہے وہ سب کچھ کتاب ( لوح محفوظ) میں لکھا ہوا ہے۔ بیشک یہ سب کچھ اللہ کے لئے آسان ہے ۔
لغات القرآن : آیت نمبر 11 تا 14۔ ۔ نطفۃ ( نطفہ ، پانی کی حقیر بوند) انثی (عورت) لا تصنع (پیدا نہیں کرتی ، جنم نہیں دیتی) یعمر ( وہ عمر کو بڑھاتا ہے) لا ینقص ( وہ کمی نہیں کرتا) یسیر ( آسان کرتا ہے) لا یستوی (برابر نہیں ہے) عذب فرات (میٹھا پانی ، پیاس بجھانے والا) سائغ (خوش گوار) شراب ( پینے کی چیز) ملح ( کھارا ، نمکین) اجاج ( کڑوا) طری ( تازہ) حلیۃ ( زیور) تلبسون ( تم پہنتے ہو) مواخر ( پانی پھاڑنے والا) یولج ( داخل کرتا ہے) مسمی (مقرر مدت ، متعین) قطمیر (چھلکا ، کھجور کی گٹھلی پر لگی جھلی) یا ینبی (وہ جبر نہیں دیتا) خبیر ( بہت خبر رکھنے والا ، نگہبان) تشریح : آیت نمبر 11 تا 14 :۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنی بعض نشانیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہی اس ساری کائنات اور اس کے ذرے ذرے کا خالق ومالک ہے اور اس کی ہر بات کا پوری طرح علم ہے۔ اس نے انسانوں کو بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس نے رزق کے تمام اسباب مہیا فرما کر آزمایا ہے کہ اپنے اختیار سے کوئی شخص کیا عمل کرتا ہے اور اپنے لئے جنت یا جہنم میں سے کون سا راستہ منتخب کرتا ہے۔ 1۔ اللہ نے انسانی نسل کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمائی جنہیں مٹی سے پیدا کیا گیا تھا پھر اس نے پانی کی ایک حقیر بوند ( نطفہ) سے انسانی نسل کو ساری دنیا میں پھیلا دیا ۔ اور ہر ایک کے لئے اسکے جوڑے اور ساتھی کو بھی پیدا کیا تا کہ اس کے ذریعہ سکون قلب حاصل ہو سکے۔ 2۔ اپنی ساری مخلوق کے متعلق اس کا علم اس قدر وسیع ہے کہ جو بچہ بھی اس دنیا میں قدم رکھ رہا ہے اس کے متعلق اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کیا ہے ؟ کیسا ہے ؟ اس کی عمر کتنی ہوگی ؟ اور اس کو کتنا رزق دیا جائے گا ؟ ان تمام باتوں کا حساب اور علم رکھنا انتہائی آسان ہے اور اس میں اس ذات پاک کے لئے کوئی دشواری نہیں ہے کیونکہ ایک ایک بات لوح محفوظ میں لکھ دی گئی ہے۔ 3۔ یہ اللہ ہی کی قدرت ہے کہ جس نے ایک ہی زمین کے سوتوں سے نکلنے والی پانی کی خصوصیات کو اس طرح کنٹرول کیا ہوا ہے اگر ایک طرف صاف ستھرا اور میٹھا پانی ہے جس سے دریا ، نہریں اور چشمے جاری ہیں تو دوسری طرف اس نے کھارے ، کڑوے اور تلخ پانی کو پیدا کر کے بےانتہاء گہرے اور عظیم سمندر بنا دیئے اور کنوؤں سے کھارے پانی کو پیدا کیا لیکن یہ اس کی ایک عظیم قدرت ہے کہ سمندر کے انتہائی کڑوے اور نمکین پانی میں پلنے اور بڑھنے والی مچھلیوں کے گوشت کو نمک اور کڑواہٹ سے محفوظ فرما دیا جو انسانوں کی بہترین عذا ہے اس میں نمک اور کڑواہٹ محسوس تک نہیں ہوتی بلکہ مچھلیوں کو پکانے کے بعد ہر انسان اپنی مرضی سے اس پر نمک چھڑک کر لطف اور لذت حاصل کرتا ہے۔ اس کڑوے اور کسیلے پانی میں اس نے نہایت خوبصورت اور قیمتی موتی ، مونگے اور مرجان کو پیدا کیا جن کو زیب وزینت کے لئے زیور بنا کر پہنا جاتا ہے۔ ان ہی پانیوں میں کشتیاں اور بڑے بڑے جہاز چلتے ہیں جو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک انسانی ضرورت کا سامان پہنچاتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں ایسی نعمتیں ہیں جن پر جس قدر شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ 4۔ اسی نے اپنی قدرت سے رات اور دن ، اندھیرے اور اجالے کو نعمت کے طور پر پیدا کیا ۔ کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں اور کبھی کی راتیں ، موسم بدلتے رہتے ہیں ، کبھی سردی ، گرمی ، جاڑا اور برسات ہے کبھی خوش گوار ہوائیں ، کبھی خشک موسم، ان کو اس لئے تبدیل کیا جاتا ہے کہ انسان زندگی اور موسموں کی یکسانیت سے کتا نہ جائے۔ 5۔ وہی ایک اللہ ہے جس نے اپنی قدرت سے چاند ، سورج اور ستاروں کو پیدا کر کے ان کو انسانوں کے لئے مسخر اور تابع کردیا یہ تمام چیزیں خادم کی حیثیت سے ان کے کاموں میں لگا دی گئی ہیں جن سے انسان بہت سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب ساری کائنات کا خالق ومالک اللہ ہی ہے اور ہر طرف اس کی قدرت کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں تو پھر اس کے سوا عبادت و بندگی کے لائق اور کون ہو سکتا ہے ؟ یقینا وہی ایک اللہ سب چیزوں کا خالق ہے اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ایک بڑی جہالت اور نادانی میں مبتلا ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ” قطمیر “ کو بھی پیدا کرسکے یعنی کھجور تو بڑی چیز ہے یہ جھوٹے معبود تو کھجور پر جو ہلکی سی ایک جھلی ہوتی ہے اس کو پیدا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ وہ کسی کو نفع اور نقصان کیا پہنچا سکتے ہیں ۔ اگر ان کو پکارا جائے تو وہ کسی کی پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ سن بھی لیں تو وہ سن کر کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں کیونکہ وہ تو خود اپنے وجود میں دوسروں کے ہاتھوں کے محتاج ہیں ۔ ان کو اگر توڑ پھوڑ دیا جائے تو وہ اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے اور اگر ان سے کسی حاجت کے لئے سوال کیا جائے تو وہ اس کو پورا نہیں کرسکتے۔ اور فرمایا کہ وہ دن کتنا حسرت ناک ہوگا جب یہ جھوٹے معبود خود اپنے ماننے والوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ دیں گے کہ الٰہی ! ہم نے ان سے نہیں کہا تھا کہ وہ ہماری عبادت کریں یہ ان کے اپنے تصورات تھے جن کی وہ عبادت و بندگی کرتے تھے ۔ فرمایا کہ یہ ایک ایسی سچی اور صحیح خبر ہے جو تمہیں اس ذات کی طرف سے دی جا رہی ہے جو ہر چیز اور ہر بات کا جاننے والا ہے۔
Top