Baseerat-e-Quran - Faatir : 31
وَ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ
وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی بھیجی ہے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب هُوَ : وہ الْحَقُّ : حق مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والی لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ : ان کے پاس اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں سے لَخَبِيْرٌۢ : البتہ باخبر بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
( اے نبی ﷺ ہم نے آپ کی طرف جو کتاب بھیجی ہے وہی بر حق ہے یہ ان کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس ہیں ۔ بیشک اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 31 تا 37 :۔ اور ثنا ( ہم نے وارث بنایا) اصطفینا (ہم نے منتخب کرلیا) مقتصد (اعتدال اختیار کرنے والا) سابق (آگے بڑھنے والا) اساور (کنگن ، سونے کا ایک زیور) لولو ( موتی) حریر (ریشم) احلنا (ہم نے بسایا ، آباد کیا) دارالمقامۃ (رہنے کا گھر) نصب ( محنت ، مشقت) لغوب ( کام کے بعد کی تھکاوٹ) لا یقضی (فیصلہ نہ کیا جائے گا) لا یخفف (کمی نہ کی جائے گی) یطر خون (وہ چیخیں گے ، چلائیں گے) نعمر (ہم نے عمر دی تھی) نصیر (مدد گار) تشریح : آیت نمبر 31 تا 37 :۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے امت کو اور ساری دنیا کے لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! جو کتاب قرآن مجید آپ کی طرف نازل کی گئی ہے وہ نہ صرف ” بر حق “ ہے بلکہ اس کے ذریعہ ان کتابوں کے سچا ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جو آپ سے پہلے ناز ل کی گئی تھیں۔ نصاری ( عیسائی) اور یہودی ( بنی اسرائیل) جن کو اہل کتاب ہونے پر ناز تھا وہ ایک دوسرے کی کتابوں کو ماننے سے انکار کرتے تھے لیکن قرآن کریم کے ذریعے توریت ، زبور اور انجیل کے سچا ہونے کی تصدق کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگرچہ لوگوں نے اپنے معمولی اور گھٹیا مقاصد کے لئے ان کتابوں میں بہت سی باتیں خود گھڑ کر شامل کردی ہیں لیکن وہ کلام جو اللہ نے نازل کیا تھا وہ بالکل سچا کلام تھا اور اسی کی تصدیق قرآن کریم کی طرف سے کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب حضور اکرم ﷺ کی اس امت کی طرف نازل کی گئی ہے جو تمام امتوں میں ” خیر امت “ ہے۔ اب وہی اس کے وارث اور ذمہ دار ہیں وہی اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت پر مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ فرمایا کہ بیشک اس قرآن کریم کی ذمہ داریاں اٹھانے والے بعض اعمال کی وجہ سے ذرا مختلف ہوں گے لیکن اس قرآن کریم کی برکت سے ان سب کی نجات ہوگی ۔ (1) ۔ بعض تو وہ لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کو پوری طرح ماننے کے باوجود اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہوں گے یعنی گناہوں اور خطائو میں ملوث ہوں گے لیکن ان کے اندر یہ احساس زندہ رہے گا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ غلط ہے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں اس احساس کے زندہ ہونے سے کبھی نہ کبھی توبہ کی توفیق مل ہی جائے گی کیونکہ جو بالکل بےحس ہوجائے کہ اپنے گناہوں پر بھی شرمندہ نہ ہو اس کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوا کرتی۔ ( 2) دوسرے ’ مقتصد “ ہیں یعنی درمیانہ درجہ کے اعمال کرنے والے کچھ اعتدال و تو ازن رکھنے والے یعنی جو لوگ نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف زیادہ رغبت رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اگرچہ تقویٰ کا اعلیٰ مقام نہیں ملتا لیکن بہر حال وہ اپنا ایک درجہ اور مقام رکھتے ہیں۔ (3) لیکن وہ لوگ جو ” سابق الخیرات “ یعنی ہر نیکی اور بھلائی کے کام کی طرف بےتابانہ دوڑتے اور لپکتے ہیں ۔ اللہ کے کامل بندے اور اللہ و رسول کی مکمل اطاعت رکنے والے ، فرائض و واجبات کی پابندی کرنے والے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ کے ہاں بہت اعلیٰ مقام اور جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار کیا جائے گا ۔ یہ تینوں طبقے جو ” وارثین کتاب “ ہیں سب کے سب جنت میں جائیں گے۔ اسی بناء پر ہمارے علماء اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر ایک شخص مومن اور وارث کتاب ہے اور اس سے گناہ بھی ہوجاتے ہیں تو وہ معمولی فرق کے ساتھ جنت میں ضرور جائے گا ۔ حضرت ابو دردا ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل کئے جائیں گے اور جو مقتصد یعنی درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہیں ان سے ہلکا سکا حساب لیا جائے گا ۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہوگا وہ بھی جنت میں جائیں گے مگر بہت طویل انتظار کے بعد ۔ جب ان کو نجات کا پروانہ ملے گا تو وہ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں شدید رنج و غم سے نجات عطاء فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جنت جس میں ان لوگوں کو داخل کیا جائے گا ان کا شاہانہ انداز ہوگا ریشم کا بہترین لباس ، موتیوں اور ہیرے جواہرات کے جڑے ہوئے تاج ، سر مئی آنکھیں ، بھر پور جوانی اور اس کی لذتیں اور ہم عمر خوبصورت حوریں یہ سب انعام کے طور پر ان کو ہمیشہ کے لئے دی جائیں گی اس پر وہ لوگ اللہ کا شکر ادا کریں گے اور کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے بغیر محنت و مشقت کے یہ تمام نعمتیں عطاء فرمائی ہیں اسی نے رنج و غم سے ہمیں نجات عطاء فرما دی ہے۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہوگا ان کو ایسی جہنم میں جھونک دیا جائے گا جہاں وہ عذب الٰہی کو دیکھ کر اس کی خواہش کریں گے اس سے تو انہیں موت ہی آجاتی لیکن ان کی حسرت کی انتہاء یہ ہوگی کہ وہ اس جہنم میں مرنا بھی چاہیں گے تو ان کی موت نہ آئے گی اور ان سے عذاب جہنم کو ہلکا بھی نہیں کیا جائے گا ۔ وہ روئیں گے چلائیں گے مگر ان ظالموں کی فریاد تک سننے والا کوئی نہ ہوگا وہ کہیں گے الٰہی ہمیں اس عذاب سے نکا لئے اب ہم دنیا میں دوبارہ جا کر وہی کچھ کریں گے جس کا ہمیں اللہ و رسول نے حکم دیا ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا جائے گا کہ اب رونے چلانے سے کیا فائدہ اور دنیا میں دوبارہ جانے کی تمنا فضول ہے کیونکہ تمہیں زندگی کا ایک طویل عرصہ دیا گیا تھا جب تم نے اس زندگی میں کفر و شرک اختیار کیا تو اب تم سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے جب کہ تمہارے پاس اللہ کے وہ رسول بھی آئے جنہوں نے تمہیں اس دن کے عذاب سے آگاہ بھی کردیا تھا مگر تم نے ان باتوں کی کبھی پروا نہیں کی لہٰذا اب اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھوآج تم ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہے اور اس طرح ان کو جہنم کی ابدی آگ میں جھونک دیا جائے گا ۔
Top