بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اللہ جو زبردست اور غالب حکمت والا ہے اسی نے اس کتاب ( قرآن مجید) کو نازل کیا ہے
لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 6 : تنزیل ( آہستہ آہستہ اتارتا ہے) اعبد (عبادت و بندگی کر) خالص (جس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو) یقرب ( وہ قریب کرتا ہے) زلفی (قریب ہونا) اصطفی (اس نے چن لیا ، منتخب کرلیا) ثمنیۃ ( آٹھ) ازواج ( زوج) (جوڑے ، نر اور مادہ) بطون ( بطن) (پیٹ) ظلمت (ظلمۃ) (اندھیرے) ذلکم (اسی میں) انی (کہاں) تصرفون (تم پلٹتے ہو، بہکتے ہو) تشریح : آیت نمبر 1 تا 6 :۔ نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہر رات کو سورة زمر اور سورة بنی اسرائیل کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ( بخاری ، مسلم، ترمذی) مذکورہ حدیث سے سورة زمر کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس سورت میں ان مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے جو دین اسلام کی وجہ سے کفار کے ہاتھوں شدید تکلیفیں برداشت کر رہے تھے اور کفار مکہ کے ظلم و ستم نے انہیں بیت اللہ کی سر زمین چھوڑ کر حبش اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت پر مجبور کردیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے پوری امت کو بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر جس قرآن حکیم کو نازل کیا ہے وہ اس اللہ کی طرف سے ہے جو ہر طرح کی طاقتیں اور قوتیں رکھتا ہے اور ہر بات اور ہر چیز کی مصلحت کو اچھی طرح جانتا ہے۔ پوری انسانیت سے اس قرآن مجید کا مطالبہ ہے کہ 1۔ اس ذات کی عبادت و بندگی اس طرح کی جائے کہ اس میں کسی دوسرے کی عبادت کا شائبہ یا ملاوٹ تک نہ ہو۔ عبادت میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی مقصود ہو۔ 2۔ اہل ایمان کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ اللہ ہی کو طاقت و قوت مان کر اس کی عبادت کریں اور ان کفار عرب کی طرح نہ ہوجائیں جو اس بات کو تو مانتے ہیں کہ ساری قوت و طاقت کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے لیکن وہ عبادت و بندگی میں دوسروں کو شریک کر کے ان بےحقیقت بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے ہیں جو کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے کی کوئی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ ان بتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور جو اہل ایمان اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کو حقیر سمجھتے ہیں ۔ فرمایا کہ اس دنیا میں شاید اس کا فیصلہ نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا فیصلہ فرما دیں گے۔ بہر حال اللہ ایسے لوگوں کو راہ ہدایت نہیں دکھاتا جو کفر و انکار کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ 3۔ اسی طرح وہ لوگ بھی راہ ہدایت سے بہت دور ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹھا سمجھ رکھا ہے ۔ یہ اللہ کی ذات پر ایک بہت بڑا الزام ہے کیونکہ وہ اس کائنات کا نظام چلانے میں قادر مطلق ہے وہ اس کو چلانے کے لئے کسی بیٹے ، بیٹی یا بیوی کا محتاج نہیں ہے۔ 4۔ زمین و آسمان اور چاند ، سورج ، ستارے یہ سب اسی نے بر حق پیدا کئے ہیں ۔ وہی رات اور دن اور ان کے الٹ پھیر کو پیدا کرنے والا ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم کے تابع ہے وہ جس طرح چاہتا ہے ان سے کام لیتا ہے۔ وہی زبردست قوتوں کا مالک ہے اور لوگوں کی کوتاہیوں کو معاف کرنے والا ہے۔ 5۔ انسان اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ہی نے اپنی قدرت کا ملہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کے وجود ہی سے ان کی بیوی حضرت حوا (علیہ السلام) کو پیدا کر کے تمام انسانوں کو دنیا میں پھیلا یا۔ 6۔ وہی ایک ذات ہے جس نے مویشوں یعنی بھیڑ ، بکری ، اونٹ اور گائے میں نر اور مادہ پیدا کئے تا کہ ان کی نسلیں چلیں اور وہ انسانوں کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ 7۔ یہ اسی کی قدرت ہے کہ اس نے انسان کو تین اندھیروں میں رکھ کر پرورش کیا ۔ ماں کے پیٹ کا اندھیرا ، رحم مادر کا اندھیرا اور تیسرے اس جھلی کا اندھیرا جس جھلی میں انسانی بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ یہ ہے وہ تمہارا پروردگار جس کی حکمرانی ہر چیز پر غائب ہے ۔ وہی ایک معبود ہے اس کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں ہے۔ یہی سیدھا راستہ ہے لیکن وہ لوگ جو اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چل رہے ہیں وہ کبھی منزل تک نہ پہنچ سکیں گے۔ خوش نصیب وہی لوگ ہیں جو صراط مستقیم پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارتے اور بناتے ہیں اور جنت کے مستحق بن جاتے ہیں۔
Top