Baseerat-e-Quran - Az-Zumar : 24
اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْهِهٖ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ قِیْلَ لِلظّٰلِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس۔ جو يَّتَّقِيْ : بچاتا ہے بِوَجْهِهٖ : اپنا چہرہ سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برے عذاب سے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : قیامت کے دن وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو ذُوْقُوْا : تم چکھو مَا : جو كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ : تم کماتے (کرتے) تھے
کیا پھر وہ لوگ قیامت کے دن اپنے چہروں کو اس عذاب سے بچا سکیں گے ۔ ایسے ظالموں سے ( ظالموں کے دن) کہا جائے گا کہ تم جو کچھ کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔
لغات القرآن آیت نمبر 24 تا 31 :۔ ذوقوا ( چکھو) اذاق ( اس نے چکھایا) الخزی (رسوائی ، ذلت) عوج ( کجی ، ٹیڑھ پن) متشکسون (بد اخلاق لوگ) میت (مرنا) تختصمون (تم جھگڑو گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 24 تا 31 :۔ اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین جن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر جہنم کی بھڑکتی آگ میں جھونک دیا جائے گا فرمایا ہے کیا وہ قیامت کے دن اپنے چہروں کو اس آگ سے بچا سکیں گے جو ان کو جھلس کر رکھ دے گی جب ان ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب وہ اپنے کئے ہوئے برے اعمال کا مزہ چکھیں ۔ فرمایا جائے گا کہ ان سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے بھی اسی طرح اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اس طرح اچانک عذاب مسلط کیا گیا کہ وہ دیکھتے ہی رہ گئے اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔ اس طرح اللہ نے انہیں دنیا میں بھی ذلیل و رسوا کیا اور آخرت میں تو ان کو اتنا شدید عذاب دیا جائے گا جس کا وہ اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ کاش وہ دنیا اور آخرت کا عذاب آنے سے پہلے ہی کچھ سوچ لیتے اور توحید خالص کو اختیار کرلیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم واضح عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جس میں نہ کوئی فلسفیانہ انداز ہے اور نہ کوئی ٹیڑھا پن ہے بلکہ روز مرہ کی صاف صاف مثالوں کے ذریعہ بتا دیا گیا ہے کہ توحید خالص پر نہ چلنے والوں کو دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی رسوائی ، ذلت اور عذاب کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کو توبہ اور توحید خالص پر عمل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو لوگ ایک اللہ کو چھوڑ کر ہر ایک کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں اور ان سے اپنی حاجتوں کے پورے ہونے کی توقع رکھتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں انہیں کبھی سکون قلبی حاصل نہ ہو سکے گا ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص بہت سے ضدی ، بد اخلاق آقاؤں کا غلام ہو ہر آقا اس کو اس طرح اپنی طرف کھینچتا ہوں ، مصروف رکھتا ہو کہ وہ دوسروں کا حق ادا نہ کرسکتا ہو اور ہر وقت ان کی خوشامد میں لگا رہتا ہو کیا یہ غلام اس غلام کی طرح ہو سکتا ہے جس کا ایک ہی مہربان آقا ہو اور وہ ایک ہی آقا کی خدمت میں لگا رہتا ہو ۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ فرمایا اسی طرح جو آدمی ایک اللہ کا غلام بن گیا وہی سکون و اطمینان سے رہے گا اس کو ہر طرح کی نعمتیں حاصل ہوں گی لیکن جو بہت سے آقاؤں کا غلام ہوگا اس کو کبھی سکون و اطمینان حاصل نہ ہو سکے گا ۔ آخر میں فرمایا کہ مکہ کے وہ کفار جو اس بات کی تمنا رکھتے ہیں کہ آپ پر موت طاری ہوجائے تا کہ وہ آئے روز کی نصیحتوں سے بچ جائیں۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر مجھ پر موت طاری ہوجائے تو کیا تم ہمیشہ اسی دنیا میں رہو گے ؟ یقینا موت کے اس دروازے سے سب کو گزرنا ہے البتہ ہر ایک آدمی اپنا اپنا نامہ اعمال ساتھ لے کر جائے گا ۔ سب اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے اپنے حق کے لئے لڑیں گے اور اللہ سب کے درمیان انصاف کر کے نہ صرف فیصلہ فرمائیں گے بلکہ ہر شخص نے جو بھی کیا ہوگا اس کا پورا پورا بدلہ عطاء فرمائیں گے ۔ حضرت زبیر ؓ سے روایت ہے کہ جب آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” انک میت “ وانھم میتون٭ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ تو میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا ہمارے وہ جھگڑے جو دنیا میں تھے وہ قیامت میں بھی دہرائے جائیں گے۔ آپ نے فرمایا وہاں وہ ضرور دھرائے جائیں گے اور ہر شخص کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے ذمے کسی کا حق ہے اس کو چاہیے کہ وہ اسی دنیا میں ادا کر دے یا معاف کرا لے کیونکہ آخرت میں درہم و دینار نہ ہوں گے۔ اگر ظالم اور زیادتی کرنے والوں کے پاس کچھ اعمال صالحہ ہوں گے تو اس ظلم و زیادتی کے بدلے میں اسکے اعمال مظلوم کو دیدئے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کے گناہ اور برائیں لے کر اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی۔ ( بخاری شریف) صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ایک دن رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے سوال کیا ، کیا تم جانتے ہو مفلس و غریب کون ہے ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم تو غریب و مفلس اس شخص کو سمجھتے ہیں جس کے پاس نہ تو نقد رقم ہو اور نہ اس کی ضروریات کا سامان ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اصل میں غریب و مفلس میری امت کا وہ شخص ہوگا جو قیامت میں بہت سے نیک اعمال نماز ، روزہ ، زکوۃ وغیرہ لے کر آئے گا مگر اس کا حال یہ ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی پر تہمت لگائی ہوگی ، کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھایا ہوگا ، کسی کو قتل کیا ہوگا ، کسی کو ستایا ہوگا یہ سب مظلوم اللہ کی بارگاہ میں اپنے مظالم اور زیادتیوں کا مطالبہ کریں گے۔ اس طرح اس شخص کی نیکیاں ان مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی ۔ پھر جب اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور مظلوموں کے حق باقی ہوں گے تو مظلوموں کے گناہ اس زیادتی کرنے والے پر ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ اور اس طرح یہ شخص نیکیوں کا بہت سا سامان ہونے کے باوجود قیامت کے دن خالی ہاتھ رہ جائے گا ۔ یوں تو ہر ایک ظلم کا دعویٰ کیا جائے گا اور مظلوموں کی فریاد سنی جائے گی لیکن جس نے کسی مظلوم کو ناحق خون بہایا ہوگا سب سے پہلے اس کا حساب لیا جائے گا چناچہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کے باہمی معاملات میں سب سے پہلے جو ( ناحق) خون بہائے گئے ہوں گے ان کا حساب ہوگا۔ ( بخاری و مسلم)
Top