Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ يُّشْرَكَ : کہ شریک ٹھہرایا جائے بِهٖ : اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشے گا مَا : جو دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : اور جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ ضَلَّ : سو گمراہ ہوا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
بیشک اللہ شرک کرنے والے کی نخشش نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ وہ جسے چاہے معاف کر دے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا وہ گمراہی میں دور بہت دور نکل گیا۔
آیت نمبر 116-122 لغات القرآن : لایغفر، معاف نہیں کرے گا۔ ضل، بھٹک گیا۔ ضلال بعید، بھٹک کر دور تک پہنچ جانا۔ انت، عورتیں، دیویاں۔ مرید، باغی۔ اضلن، میں ضرور گمراہ کروں گا۔ امنین، میں ضرور امیدیں دلاؤں گا۔ امرن، میں ضرور سکھاؤں گا۔ یبتکن، ضرور پھاڑیں گے۔ اذان، کان۔ الانعام، مویشی، جانور۔ یغیرن، ضرور تبدیل کریں گے۔ غرور، دھوکا، فریب۔ محیص، بھاگنے کی جگہ۔ اصدق، زیادہ سچا۔ قیل، کہا گیا، قول۔ تشریح : یہاں بالکل واضح طریقہ سے کہہ دیا گیا ہے کہ شرک کی معافی نہیں ہے۔ اس کے سوا اگر اللہ چاہے تو ہر گناہ کی معافی ہوسکتی ہے۔ چونکہ شرک ہی سارے گناہوں کی جڑ ہے۔ یہ کفر کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ جب بندہ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود ٹھہراتا ہے تو وہ گویا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے کہ کس کا حکم مانے اور کس کا حکم نہ مانے پھر اللہ کا وہی حکم مانتا ہے جہاں اس کا بنیادی مفاد مجروح نہ ہو۔ بقیہ ہر جگہ وہ شیطان کی پیروی کرتا ہے۔ آیت 117 میں ہے ” کہ وہ باغی شیطان کی پیروی کرتے ہیں “ ۔ شیطان کی پیروی سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کی پوجا پاٹ ہوتی ہے اسکو رکوع یا سجدہ کیا جاتا ہے ، یا اس سے دعائیں کی جاتی ہیں، شیطان کی عبادت سے مراد یہ ہے کہ اس کے بہکائے میں آجانا اس کے پر فریب وعدوں پر یقین کرلینا۔ اس کی دلائی ہوئی امیدوں پر لپکنا اور جیسے وہ چلائے ویسے چلنا۔ یہ اس کی بندگی کرنا ہی ہے۔ دنیا میں شیطان بہت سے روپ دھارتا ہے۔ کبھی حاکم کبھی لیڈر، کبھی چور، کبھی ڈاکو، کبھی دوست، کبھی رشتہ دار بن کر آتا ہے۔ ہر پھنسنے والے کے لئے جال الگ ہے۔ جو جس طرح پھنس سکے۔ عبادت صرف رسمی طریقوں کو بجا لانے کا نام نہیں ہے بلکہ معبود کے اشاروں اور حکموں پر چلنے کو عبادت کہتے ہیں۔ شرک یہ ہے کہ رسمی طریقے تو اللہ تعالیٰ کے بجالائے اور دنیا کے کاموں میں وہ مختلف طریقوں سے شیطان کا حکم مانتا رہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں میں ردوبدل کرنے سے مراد تہذیب تمدن سائنس ایجاد صنعت و حرفت مراد نہیں ہے کیونکہ یہ تو انسانی ترقی کے لئے لازمی ہیں۔ مراد ہے کہ مرد زنانہ کام کرنے اور عورت مردانہ کام یا پھر خاندانی منصوبہ بندی، عمل قوم لوط ” رہبانیت “ یعنی کسی چیز سے وہ کام لینا جو اللہ کی فطرت اور قدرت کے خلاف ہو۔ آج کل مغربی تہذیب یہی ہے۔ مگر وہ صحت، سکون، اخلاق، اعتماد، ازدواجی اور خاندانی محبت، ایمان داری، حلال و حرام کی کس پستی پر پہنچ گئی ہے اس سے ہر شخص اچھی طرح واقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان کے سبز باغ مکرو فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ اہل ایمان کیلئے جنت کا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ قول کا سچا کون ہے ؟
Top