Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 13
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ اللّٰهَ : اللہ کی اطاعت کرے وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول يُدْخِلْهُ : وہ اسے داخل کرے گا جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِھَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْھَا : ان میں وَ : اور ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
اللہ ہی نے یہ حدیں قائم کی ہیں۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی وہ ایسی جنتوں میں داخل ہوگا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اور یہ اس کے لئے عظیم کامیابی ہے۔
آیت نمبر 13 – 14 لغات القرآن : حدود اللہ، اللہ کی حدیں ہیں۔ الفوز العظیم، بڑی کامیابی۔ یعص، نافرمانی کرتا ہے۔ یتعد، وہ حد سے بڑھتا ہے۔ مھین، ذلت، (ذلت والا عذاب) تشریح : یہ حصے اس نے مقرر کئے ہیں جس کے پاس علم بھی ہے اور حکمت بھی۔ اس کی مصلحتوں اور دانش کو کون پہنچ سکتا ہے۔ اگر ان حدود کی پرواہ نہ کی جائے تو پھر یہ جنگل کی انار کی اور لاقانونیت ہوگی۔ کسب مال، صرف مال، اقتصادیات، معاشرت، کنبہ داری، حقوق، عزت اور الفت سب تہہ وبالا ہوجائیں گے۔ اس لئے ان آیات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اطاعت کرنے والوں کو عظیم انعامات کا یقین دلایا ہے اور بغاوت کرنے والوں کے لئے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ کسی مذہب نے وراثت کے اصول اور حدیں مقرر نہیں کی ہیں۔ اگر کوئی قاعدہ یا قانون ہے تو وہ انسانوں کا بنایا ہوا ہے۔ جس میں نہ علم ہے نہ حکمت ہے۔ قرآن نے جو اصول وراثت پیش کئے ہیں ان کی وضاحت میں حضور ﷺ کی احادیث نے بھی بہت کچھ اصول پیش کئے ہیں۔ مثلاً (1) مورث اور وارث دونوں مسلم ہوں۔ مسلم کا ترکہ کافر یا کافر کا ترکہ مسلم کو نہیں پہنچ سکتا۔ اگر مورث مرتد ہوگیا تھا تو حالت اسلام میں جو کچھ مال اس کے پاس تھا اس کا ترکہ مسلم وراثوں کو ملے گا۔ حالت ارتداد میں جو کچھ اس نے کمایا وہ بیت المال میں جمع ہوجائے گا۔ (2) لیکن اگر عورت مرتد ہوگئی تھی تو اسکا کل مال، خواہ اس کا تعلق زمانہ اسلام سے ہو یا زمانہ ارتداد سے، اس کے مسلم وارثوں کو ملے گا۔ (3) مرتد مرد یا عورت ، اسے کسی مسلم کی میراث نہیں ملے گی۔ (4) قاتل کو مقتول کی میراث میں سے کوئی حصہ نہ ملے گا۔ بشرطیکہ قتل ایسا ہو جس پر شرعاً قصاص یا کفارہ لازم ہے۔ حضور ﷺ نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوگا۔ البتہ جس قتل میں شرعاً قصاص یا کفارہ لازم نہیں اس میں وراثت ملتی ہے۔ (5) اگر بیوہ حاملہ ہے تو وہ بچہ بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوا وارثوں میں شریک ہے۔ چونکہ یہ معلوم نہیں وہ بچہ لڑکا ہے یا لڑکی اسی لئے وضع حمل سے پہلے جائیداد کی تقسیم نہیں ہوگی لیکن اگر جائیداد کی فوری تقسیم ضروری ہے تو موجودہ ورثا سے پختہ عہد کے ساتھ ضمانت بھی لی جائے کہ حمل سے اگر ایک سے زیادہ بچے پیدا ہوگئے تو ان کے استحقاق کے مطابق واپس کردیں گے پھر ایک لڑکے اور ایک لڑکی کا حصہ موقوف چھوڑا جائے یا لڑکا یا لڑکی میں سے جس صورت میں زیادہ ملتا ہو وہی فرض کرکے محفوظ کرلیا جائے۔ پھر ولادت ہونے پر ہر ایک کے استحقاق کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ (6) اگر کسی نے مرض الوفات میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی پھر عورت کی عدت ختم ہونے سے پہلے اسی بیماری میں شوہر کا انتقال ہوگیا تو بیوی کو میراث کا مقررہ حصہ ملے گا۔ خواہ طلاق طلاق بائن رجعی یا مغلظہ ہو سب کا ایک ہی حکم ہے لیکن اگر شوہر کا انتقال عدت ختم ہونے کے بعد ہوا تو بیوی کی میراث میں سے کوئی حصہ نہیں لے گا۔ اسی طرح اگر شوہر کا انتقال اسی بیماری میں نہیں ہوا بلکہ اس بیماری سے تندرست ہوگیا تھا پھر بیمار ہوکر وفات پائی تو اس صورت میں بھی بیوی کو کوئی حصہ نہیں ملے گا، خواہ عدت ختم ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ (7) اگر شوہر نے بیوی کے مانگنے پر طلاق بائن دی تو عورت کو میراث میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، خواہ شوہر کا انتقال عدت کے اندر ہو یا عدت کے بعد دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ البتہ اگر عورت کے مانگنے پر طلاق رجعی دی ہے خواہ اس نے رجعی مانگی ہو یا بائن بہر صورت اگر عدت کے اندر شوہر کا انتقال ہوگیا تو بیوی کو اپنا مقررہ حصہ ملے گا۔ (8) شوہر کے مرض الوفات میں یا اس سے پہلے اگر عورت نے خلع لے لیا ہے تو وہ وارث نہیں۔ خواہ شوہر خلع کی عدت کے دوران مر جائے۔ (9) اس کے علاوہ فقہ کے اور بہت سے مسائل ہیں جو فقہ کی کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
Top