Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو ۔ اور برے مال سے اچھے مال کو نہ بدل ڈالو۔ اور ان کے مال کو اپنے مال میں ملا کر نہ کھا جاؤ۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
آیت نمبر 2 لغات القرآن : اتوا، تم دو ۔ لاتتبدلوا، تم تبدیل نہ کرو۔ الخبیث بالطیب، گندگی کو پاکیزگی سے۔ حوب، لفظ حوب حبشی زبان کا ہے جس کے معنی ہیں بڑا گناہ عربی میں یہ لفظ اسی معنی کے لیے بولا جاتا ہے ۔ کبیرا، بڑا۔ تشریح : ابھی کہا گیا ہے کہ اللہ کا تقوی اختیار کرو یعنی اس سے امیدیں لگاؤ۔ اس سے ڈرو۔ اور اس کا حکم مانو۔ پہلا حکم یتیموں کے متعلق ہے۔ ہر قوم میں ہر زمانے میں یتیم ہوتے ہیں۔ جو قوم یتیموں کا حق مار دیتی ہے وہ اپنے ایک اہم حصہ کو ضائع کردیتی ہے۔ ممکن ہے یتیموں میں یا ان کی اولادوں میں عظیم ہستیاں ہوں۔ وہ قوم ان عظیم ہستیوں سے محروم رہ جائے۔ پھر یتیم ہر خاندان میں اور ہر طبقے میں ہوتے ہیں۔ اگر یتیموں کو تلف کیا گیا تو آہستہ آہستہ ساری قوم تلف ہو سکتی ہے۔ پھر کیا ٹھکایا ہے کہ آج جو لوگ یتیموں کا حق مار رہے ہیں وہ کل خود یتیم اولاد نہ چھوڑ جائیں۔ اگر اپنی قوم کو عظیم بنانا ہے یا کم از کم بچانا ہے تو یتیموں کی خدمت اور حفاظت مقدم ہے۔ جیسا کہ یہ آیت مظہر ہے اس کے تین طریقے ہیں۔ (1) یتیموں کا مال یتیموں پر صر کیا جائے اور جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا مال شریعت کے مطابق ان کے حوالے کردیا جائے (2) ان کے اچھے مال کو برے مال سے نہ بدلا جائے (3) ان کے مال کو اپنے مال میں ملا کر نہ کھایا جائے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ حساب کتاب الگ الگ اور صاف صاف رکھا جائے۔ اس اصول سے غبن، خوردبرد، غفلت ، تصرف وغیرہ کے چور دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔
Top