Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور تم اپنے ان مالوں کو جو تمہارے لئے قیام زندگی کا ذریعہ ہیں بےعقلوں کو نہ پکڑا دو ۔ البتہ ان مالوں میں سے ان کو کھلاؤ، پہناؤ اور ان سے قول معروف (یعنی قاعدے کی بات) کرو۔
آیت نمبر 5- 6 لغات القرآن : لاتؤتوا، تم نہ دو ۔ السفھاء، نادان ، ناسمجھ۔ قیم، سہارا، سرمایہ زندگی۔ اکسوا، پہناؤ۔ قول معروف اچھی بات، معقول بات۔ ابتلوا، آزماؤ۔ الیتمی، یتیم، بےباپ کے بچے۔ حتی بلغوا، جب تک وہ پہنچ نہ جائیں۔ انستم، تم نے محسوس کیا، اندازہ کرلیا۔ رشد، سمجھ داری، ہوشیاری۔ ادفعوا، دے دو ، حوالے کر دو ۔ اسراف، زیادتی ، اڑا لینا۔ ان یکبروا، یہ کہ وہ بڑے ہوجائیں۔ غنی، خوش حال، آسودہ۔ فلیستعفف، پھر بچنا چاہئے۔ اشھدوا، گواہ بنالو۔ حسیب، حساب لینے والا۔ تشریح : حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اپنا پورا مال کم عقل بچوں اور عورتوں کے حوالے اس طرح نہ کرو کہ خود ان کے محتاج بن کر بیٹھ جاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو قوام اور منتظم بنایا ہے فرمایا تم مال کو خود اپنی حفاظت میں رکھ کر ضرورت کے مطابق ان کو کھلاؤ پہناؤ اور ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتے رہو اور اگر ناسمجھ یتیم بچے اس مال کو اپنے قبضے میں لینے کا مطالبہ کریں تو ان کو معقول طریقے سے سمجھا دو جس میں ان کی دل شکنی بھی نہ ہو اور مال بھی ضائع نہ ہونے پائے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ ایسے یتیم بچے جن کے مال کے تم نگراں ہو ان کو ایسے ہی مال نہ دے دو بلکہ آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کو آزماتے رہو کہ وہ اس قابل بھی ہیں کہ اگر مال و دولت ان کے سپرد کردیا جائے گا تو وہ اس کا ضائع نہ کریں گے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے چھوٹے چھوٹے معمولی خریدوفروخت کے معاملات سپرد کرکے دیکھو۔ ان کی صلاحیتوں کا امتحان کرتے رہو۔ یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوجائیں تو اب خاص طور سے اندازہ لگاؤ کہ وہ اپنے معاملات میں سمجھ دار ہوگئے ہیں یا نہیں۔ جب تم ان میں ہوشیاری محسوس کرلو تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو ۔ اس کی احتیاط ہونی چاہئے کہ جب مال ان بچوں کے حوالے کیا جائے تو کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنا لیا جائے تاکہ آئندہ کسی موقع پر کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ وہ انسانوں کے تمام اعمال اور افعال و کردار سے آگاہ ہے۔ ایک آدمی دنیا کی نگاہوں میں دھول جھونک سکتا ہے لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتا اس لئے ممکن ہے ایک شخص کچھ لوگوں کے سامنے حساب کتاب پیش کرکے سرخ رو ہوجائے لیکن اصل حساب کتاب وہ ہے جب قیامت کے دن تمام انسانوں سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ ان آیات میں یتیم بچوں کے سرپرستوں کیلئے چند خاص ہدایات دی گئی ہیں۔ فرمایا گیا ہے کہ (1) امانت میں خیانت نہ کی جائے (2) یتیم کے مال کو فضول نہ اڑایا جائے (3) اور اس خوف سے جلدی جلدی خرچ نہ کردیا جائے کہ وہ بچے جوان ہوکر اپنا حق طلب کریں گے (4) اگر ایک سرپرست اپنا خرچ آپ برداشت کرسکتا ہے تو یتیم کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے، لیکن اگر ضرورت مند ہے تو بقدر حاجت لے سکتا ہے۔ حضرت عثمان ؓ غنی خلیفہ ثالث اسی آیت کے تحت حکومت کے خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ دوسرے خلفاء راشدین بھی بس اتنی ہی رقم لیتے تھے جس سے ان کا گزارہ ہوجائے۔ اس جگہ ایک بات کا اور لحاظ رکھا جائے کہ ان آیات میں نابالغ بچوں کیلئے فرمایا جا رہا ہے پوری ملت اور اس کے ہر فرد کیلئے نہیں فرمایا گیا ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کو دلیل بنا کر یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مال و دولت بہت اہم ہے اس کو نادان اور ان پڑھ قوم کے لئے کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا لہٰذا اگر ساری قوم کا مال و دولت حکومت لے کر سب کو روٹی کپڑا مکان انصاف کے ساتھ دے تو یہ بہتر ہے اور دلیل میں اس آیت کو پیش کرتے ہیں میں ایسے نادانوں سے یہی کہوں گا کہ کمیونسٹ نظریات کو (جو نظام تقریباً فیل ہوچکا ہے) اس کو اپنانے کیلئے خواہ مخواہ کی تاویلیں کرکے قرآن کریم کے ابدی اصولوں کو وقتی نطریات کی بھینٹ چڑھانا جائز نہیں ہے۔ اور ہمیں ان نطریات سے مرعوب ہوکر قرآن و سنت کو اس رنگ میں ڈھالنا کائنات کی سب سے بڑی بےوقوفی ہے۔ اس آیت میں نابالغ نادان بچوں کیلئے فرمایا جا رہا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد فوراً ہی مال ان کے حوالے نہ کیا جائے جب ان میں معاملہ فہمی پیدا ہوجائے تو پھر حق دار کو اس کا حق دے دیا جائے۔
Top