Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 85
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا
مَنْ : جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : شفارش حَسَنَةً : نیک بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّنْھَا : اس میں سے وَمَنْ : اور جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : سفارش سَيِّئَةً : بری بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے كِفْلٌ : بوجھ (حصہ) مِّنْھَا : اس سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مُّقِيْتًا : قدرت رکھنے والا
جو شخص نیکی کی سفارش کرے گا وہ ثواب پائے گا ۔ جو برائی کی سفارش کرے گا وہ بدلہ پائے گا۔ اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے
آیت نمبر 85-86 لغات القرآن : یشفع، سفارش کرتا ہے۔ شفاعۃ حسنۃ، اچھی سفارش، شفاعۃ سیئۃ، بری سفارش۔ کفل، حصہ۔ مقیت، نگہبان، حییتم، تمہیں دعا دی گئی ، سلام کیا۔ حیوا، تم دعا دو ، سلام کرو۔ تشریح : یہاں شفاعت کے کم از کم دو معنی ہیں۔ اول تبلیغ و ترغیب۔ دوسرے حکام بالا تک کسی کی سفارش کرنا۔ ایک معنی اور بھی ہوتے ہیں کسی بےقصور کی وکالت کرنا۔ اب یہ اپنی اپنی توفیق ہے کوئی اسلام کی تبلیغ کرتا ہے کوئی کفر کی۔ کوئی لوگوں کو راہ ہدایت پر لانے کی کوشش کرت ا ہے تو کوئی راہ شیطنت پر لانے کی۔ دونوں کو جزا ملے گا۔ ایک کو ثواب کی دوسرے کو عذاب کی۔ سفارش کے یہ معنی بھی ہیں کہ صاحب حکم و اختیار کے پاس کسی کے خلاف یا کسی کے حق میں دلیل ، بیان واقعہ یا اپنی دوستی اور تعلقات کے اثر کو استعمال کرنا۔ بشرطیکہ جائز کام کے لئے ہو۔ کسی کو ناجائز حق دلانے کے لئے نہیں یا کسی کا جائز حق مارنے کے لئے نہیں۔ اگر یہ کسی ایسے شخص کی بات اوپر پہنچانے کے لئے ہو جو خود اپنی بات پہنچا نہیں سکتا تو اللہ کے ہاں اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ اس سفارش میں دعا بھی شامل ہے۔ اگر یہ سفارش کسی کا جائز حق مارنے کیلئے ہے یا ناجائز حق دلانے کے لئے ہے۔ اگر اس سفارش کے پیچھے حق و صداقت نہ ہو بلکہ دنیا کی غرض یا رشوت یا اقربا پروری یا قوم پروری ہو۔ یا محض جذبہ دوستی یا جذبہ دشمنی ہو تو اس کا عذاب ہو کر رہے گا۔ آیت 85 سے ظاہر ہے کہ سفارش میں ثواب یا عذاب پانے کیلئے کامیابی کی شرط نہیں۔ محض سفارش کردینا کافی ہے۔ بات مانی جائے یا نہ مانی جائے۔ سفارش میں نبی کریم ﷺ کی عدالت میں بھی بات پہنچانا شامل ہے۔ صحیح سفارش بھی یا غلط سفارش بھی۔ اللہ کے ہاں اپنے اپنے نتیجے کے ساتھ سامنے آجائے گا۔ آیت 86 میں بتایا گیا ہے کہ جب وہ مسلمان آپس میں ملیں تو انہیں کس طرح سلام کرنا چاہئے۔ نہ صرف یہ ادب وتمیز کا ایک طریقہ ہے بلکہ تعلقات عامہ کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ یہ سلامتی کی دعا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس سے اجنبی بلکہ دشمن سے بھی ربط ضبط بڑھتا ہے۔ اور مسلمانوں میں باہمی تعلقات زیادہ گہرے اور محبت والے ہوجاتے ہیں ۔ یہ اسلام کی خاص پہچان ہے۔ حکم ہے کہ نہ صرف تم سلام کرنے میں پہل کرو بلکہ اگر کوئی محبت اور عزت سے تمہیں سلام کرے تو بہتر طریقہ سے جواب دو ۔ یعنی السلام علیکم کا جواب وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہونا چاہئے۔ سلام کرنا اور جواب دینا یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ میں تمہارا دشمن نہیں ہوں اور تمہاری بھلائی کا خوستگار ہوں۔ یہاں بھی اور وہاں بھی۔ آنحضرت ﷺ ارشاد ہے کہ اے مومنو ! تم آپس میں سلام کرنے کے طریقے کو پھیلاؤ۔ سلام کا جواب بہتر طریقہ پر دینے کے لئے صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ انداز بھی مخلصانہ ہونا چاہئے اگر ایک شخص منہ پھلا کر بےرخی ہے ” وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ “ کہتا ہے لیکن انداز دوسرے کو ذلیل کرنے کا ہے تو اس کو بہتر جواب نہیں کہا جائے گا۔ سلام کا بہترین جواب الفاظ اور اپنے مخلصانہ انداز سے ہی ممکن ہے۔
Top