Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
(اے مسلمانو ! ) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہارے اندر دو جماعتیں ہوگئی ہیں حالانکہ اللہ نے ان کو ان کے اعمال کے سبب الٹ دیا ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ تم اس کو راہ پر لے آؤ جس کو اللہ نے راہ سے بھٹکا دیا ہے اور جس کو اللہ ہی نے گمراہ کردیا ہو تو اسے راہ ہدایت پر نہیں لاسکتے۔
آیت نمبر 88-90 لغات القرآن : مالکم، تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ فئتین، وہ جماعتیں۔ ارکس، الٹ دیا۔ یصلون، وہ ملتے ہیں۔ حصرت، رک گئی، رک گئے۔ اعتزلوا، وہ علیحدہ ہوگئے۔ السلم، صلح۔ تشریح : جس زمانے میں رسول اللہ ﷺ نے ہجرت فرمائی اس زمانے میں ہر مسلمان کو حکم تھا کہ جو مسلمان جہاں کہیں بھی ہے بشرط طاقت مدینہ کی طرف ہجرت کر جائے۔ ورنہ اس کا شمار منافقین میں ہوگا۔ ان میں ایک طبقہ تو وہ تھا جو جانے کے لئے مالی اور دوسری استطاعت نہیں رکھتا تھا۔ وہ تمام مظلومیت کے باوجود مجبوراً اپنی جگہ رہ گیا۔ ان کا شمار مستضعفین میں ہوا۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جو اپنے دنیاوی مفاد کی خاطر ہجرت سے گریز کرتا تھا۔ یہ لوگ بظاہر اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔ نماز روزہ وغیرہ بھی کرتے تھے لیکن کافروں کے ساتھ مل کر اسلام کے خلاف ان کی ہر کوشش اور کاوش میں شریک رہتے تھے۔ اس دوسرے طبقہ کے متعلق مسلمانوں میں دورائے ہوگئی تھیں ایک مکتب خیال کہتا تھا کہ یہ مسلمان ہیں۔ ہم ان کے خلاف کیسے قدم اٹھا سکتے ہیں۔ دوسرا مکتب خیال کہتا تھا کہ یہ منافق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں دوسرے مکتب خیال کا ساتھ دے کر صاف صاف اعلان کردیا کہ یہ منافقین ہیں۔ ان کی قسمت ہی میں گمراہی لکھی ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ان سے دوستی اور محبت حرام ہے۔ جہاں ملیں ان کو پکڑ لو۔ یا قتل کردو کیونکہ ایسے لوگوں کا کفر و ارتداد ظاہر ہوگیا تھا اور نہ منافقین تو قتل نہیں کئے جاتے تھے۔ ان آیات میں کچھ دوسرے منافقین کا ذکر بھی ہے کہ وہ بظاہر ہجرت کرکے مدینہ آگئے ہیں لیکن وہ اسلام کے وفا دار نہیں ہیں۔ وہ اس لئے آگئے ہیں کہ کفر و اسلام کی مسلسل لڑائیوں سے ان کے مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اور ان کی قوم جیت نہیں رہی ہے۔ اگر ان کی قوم لڑائی میں غلبہ پاتی تو یہ منافقین اپنی قوم کی طرف سے لڑتے۔ اب اگر مجبوراً وہ پرسکون اور پر امن ہیں تو ان پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں۔ منافقین کی تیسری قسم وہ ہے جن کا تعلق ایسی قوم سے ہے جس کے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے۔ جب تک وہ امن سکون سے ہیں ان کے خلاف بھی ہاتھ اٹھانا جائز نہیں۔ جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا مومنین کو ہجرت کا حکم تھا۔ مومن بننے کے لئے ہجرت اور ایمان دونوں کی شرط تھی۔ صرف ہجرت یا صرف ایمان مستضعفین کے سوا کسی کے لئے کافی نہ تھا۔ علماء جمہور کے نزدیک فتح مکہ کے بعد ہجرت کے لئے یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اور پوری امت کا اسی پر اجماع ہے۔
Top