Baseerat-e-Quran - Az-Zukhruf : 16
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ
اَمِ اتَّخَذَ : یا اس نے انتخاب کرلیں مِمَّا يَخْلُقُ : اس میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے بَنٰتٍ : بیٹیاں وَّاَصْفٰىكُمْ : اور چن لیا تم کو بِالْبَنِيْنَ : ساتھ بیٹوں کے
کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے ( اپنے لئے) بیٹیاں بنائیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا ہے ۔
لغات القرآن آیت نمبر 16 تا 25 : اصفی ( اس نے چن لیا ، منتخب کرلیا) ظل ( ہوگیا ( ہوجاتا ہے) مسودا ( سیاہ تاریک) کظیم (گھٹنے والا) ینشوا ( پالا اور پرورش کیا جاتا ہے) الحلیۃ (زیور) الخصام ( جھگڑنا ، بحث کرنا) شھدوا (وہ حاضر تھے ، موجود تھے) یخرصون (وہ اٹل کی باتیں کرتے ہیں) مستمسکون ( تھامنے والے ، سنبھالنے والے) امۃ ( طریقہ ( امت ، جماعت) مترفون (عیش پسند ، مال دار) مقتدون ( پیروی کرنے والے) اھدی (زیادہ ہدایت) انتقمنا (ہم نے انتقام لیا) عاقبۃ (انجام ، نتیجہ) تشریح : آیت نمبر 16 تا 25 : ان آیات سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سے نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جیسے زمین و آسمان کی پیدائش اور ان کے درمیان انسان کی راحت و سکون کے بیشمار اسباب ، زمین میں چلنے پھرنے اور آنے جانے کے راستے ، بلندی سے پانی کے برسنے اور اس سے مردہ زمین میں نئی تر و تازگی پیدا کرنے جس سے زمین اور اس کی پیداوار سے زمین ہری بھری ہوجاتی ہے۔ ان بہت سی نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان کی قدر کرتے ہوئے ہر آن اس کا شکریہ ادا کیا جاتا ۔ جن کے دلوں میں ایمان کی روشنی موجود ہے وہ تو اس کی قدر کرتے اور اس پر شکر ادا کرتے ہیں لیکن کفار و مشرکین کا یہ حال ہے کہ وہ نہ صرف نا شکری کرتے ہیں بلکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مقابلے میں اپنے گمراہ باپ دادا کی اندھی تقلید ، ضد ہٹ دھرمی اور نا فرمانیوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان کی نافرمانی ، بےادبی اور گستاخی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انہوں نے اللہ کے فرماں بردار بندوں اور فرشتوں کو اللہ کے وجود کا ایک حصہ ، جزو اور اولاد بنا کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جو قیامت میں اللہ کے سامنے ان کی سفارش کر کے ان کو اللہ کے غضب اور غصہ سے نجات دلا دئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان جاہلانہ اور احمقانہ باتوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ( اللہ کے نزدیک لڑکا اور لڑکی دونوں اس کی نعمتیں ہیں لیکن) ان کفار کا یہ حال ہے کہ خود تو وہ لڑکے چاہتے ہیں اور جب کبھی ان کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ ان کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے تو ان کے چہرے سیاہ تاریک پڑجاتے ہیں ۔ دل ہی دل میں غم کے مارے گھٹتے رہتے ہیں۔ انہیں بیٹی کی پیدائش سے ایسی شرمندگی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں سے چھپے چھپے پھرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ اس ذلت کو برداشت کرلیں یا اس لڑکی کو زندہ زمین میں گاڑ دیں ۔ فرمایا کیسی عجیب بات ہے کہ ان کے نزدیک تو لڑکی کا وجود ایک قابل نفرت چیز ہے اسے وہ انتہائی حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں لیکن وہ اللہ کے لئے اسکے فرشتوں کو اس کی بیٹیاں ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ کیسی بےانصافی اور نادانی کی بات ہے۔ فرمایا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں کیسے ہو سکتی ہیں جن لڑکیوں کو زیور ، کپڑوں اور بنائو سنگھار سے فرصت نہیں ہوتی اور ان میں سے اکثریت ایسی ہے جو مردوں کی طرح نہ تو پر اعتماد انداز سے کلام کرسکتی ہیں اور نہ وہ اپنی بات منوا سکتی ہیں وہ اللہ کی اولاد کیسے ہو سکتی ہیں ۔ اللہ تو وہ ہے جو بیٹا ، بیٹی اور بیوی سے بےنیاز ہے اور فرشتے اللہ کی ایک مخلوق ہیں جو اللہ کے احکامات کی فرماں برداری کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے گمراہ لوگوں سے سوال کیا ہے کہ جب اللہ نے ان فرشتوں کو پیدا کیا تھا تو کیا اس وقت یہ لوگ وہاں کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے ؟ یقینا یہ سب باتیں ان کے بےبنیاد خیالات ہیں جن پر وہ اپنے گمراہ باپ دادا کی اندھی تقلید کی وجہ سے ایسا کہتے اور سمجھتے ہیں ۔ فرمایا کہ اللہ ان کے تمام اعمال کو لکھ رہا ہے اور وہ ان کے کسی عمل سے بیخبر نہیں ہے۔ قیامت کے دن ان کے اعمال ان کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے۔ کفار و مشرکین کی بےادبی ، گستاخی اور جہالت کی انتہاء یہ تھی کہ وہ اپنے گناہوں پر بھی یہ کہہ کر مطمئن ہوچکے تھے کہ ہم جو بھی گناہ اور شرک کے کام کرتے ہیں ان سے اللہ ناراض نہیں ہے کیونکہ اگر وہ ناراض ہوتا تو ہم یہ گناہ ہرگز نہ کرتے۔ گویا وہ یہ کہتے تھے کہ اس دنیا میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے ہم جو بھی ثواب یا گناہ کا کام کرتے ہیں وہ اللہ کی مرضی سے کرتے ہیں ( نعوذ باللہ) انہوں نے کبھی یہ نہ سوچا کہ اگر ایک شخص چوری ، ڈاکہ ، قتل ، زنا اور بد کاری اور بڑے سے بڑے گناہ کو کرنے کے بعد یہ کہے کہ یہ سب کچھ میں نے خود نہیں کیا ہے بلکہ اللہ کی مرضی سے کیا ہے تو کیا دنیا کی کوئی عدالت یا کوئی انصاف پسند انسان اس کے اس جاہلانہ تصور کی حمایت کرسکے گا ؟ اگر دنیا کی عدالتیں اور انسان بھی ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تو وہ اللہ سے ایسی احمقانہ امیدیں کیوں باندھے ہوئے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ ان کی یہ باتیں بالکل بےبنیاد ہیں ۔ اگر اللہ نے ان باتوں کے ثبوت کے لئے کوئی کتاب نازل کی ہے تو وہ اس کو لے کر آئیں اور ثبوت کے طور پر پیش کریں ۔ دراصل ان کے پاس کوئی اس کی دلیل نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں کام کو کرتے ہوئے اپنے باپ دادا کو دیکھا ہے۔ فرمایا کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان کے باپ دادا نے کوئی کام ایسا کیا ہو جو سراسر گناہ تھا اور ان کے پاس نہ تو کوئی علم ہدایت تھا نہ کوئی کتاب تھی ۔ اللہ نے اور اس کے پیغمبروں نے ہمیشہ یہی سوال کیا ہے کہ اگر ان کے باپ دادا کسی گناہ یا جہالت کی بات پر قائم تھے تو کیا وہ بےسوچے سمجھے ان کی اندھی تقلید کئے چلے جائیں گے ؟ کیا ان کے پاس عقل ، فہم اور سمجھ نہیں ہے ؟ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تقلید بری چیز نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ایسے آدمی کی تقلید کرتا ہے جس کی پوری زندگی اور اس کی زندگی کے اصولوں کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے تو اس کے پیچھے چلنا یا اس کی تقلید کرنا تو عین ثواب ہے۔ دراصل دین اسلام میں اس تقلید کو اندھی تقلید کہا گیا ہے جو محض اپنے باپ ، دادا کی ہر بات کو اس لئے مان لیا جائے کہ اس کے باپ دادا نے ایسا کیا تھا خواہ اسکے باپ دادا گمراہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ اگر غور کیا جائے تو دنیا میں ہر آدمی کسی نے کسی کی تقلید کرتا ہے اور اس کے طریقوں کو پسند کر کے اسی جیسا انداز اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دین نے ہمیں اس کی ہدایت و رہنمائی فرمائی ہے کہ جس کی بھی تقلید کی جائے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ اس کی زندگی کتاب و سنت یعنی اسلامی شریعت کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اگر ہے تو نیک راہوں پر چلنے کے لئے اس کی بات مانی جائے اور اس کی تقلید کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے تمام پیغمبر ہمیشہ لوگوں کو برے اعمال کے برے نتائج اور اندھی تقلید سے بچاتے اور سمجھاتے رہے۔ جنہوں نے ان کی نافرمانی کی اللہ نے ان پر اپنا غضب نازل کیا اور ان سے شدید انتقام لے کر ان کو نشان عبرت بنا دیا ۔
Top