Baseerat-e-Quran - Az-Zukhruf : 26
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم نے لِاَبِيْهِ : اپنے والد سے وَقَوْمِهٖٓ : اور اپنی قوم سے اِنَّنِيْ : بیشک میں بَرَآءٌ : بےزار ہوں مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ : اس سے جو تم عبادت کرتے ہو
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور اپنی قوم سے کہا کہ تم جن چیزوں کی عبادت و بندگی کر رہے ہو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 35 : برائ (بیزار ہوتا) فطرنی ( اس نے مجھے پیدا کیا) کلمۃ باقیۃ (باقی رہنے والا پیغام) عقب (پیچھے) متعت ( میں نے سامان دیا) قریتین (دو بستیاں ( مکہ و طائف) یقسمون ( وہ تقسیم کرتے ہیں) معیشت (روزی) سخریا ( ذلیل ، ذلت) سقف ( چھتیں) فضۃ ( چاندی) معارج ( معراج) (سیڑھیاں) سرر ( سریر) تخت ، بیٹھنے کی جگہیں) زخرف (سونا) تشریح : آیت نمبر 26 تا 35 : اوپر کی آیات میں گمراہ باپ دادا کے نقش قدم پر چلنے ، اللہ کے پیغمبروں کی تعلیمات سے منہ پھیر کر زندگی گزارنے ، حق و صداقت کا انکار کرنے والے کے سامنے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر وہ قریش مکہ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا جدا مجد مانتے اور ان کی نسبت پر فخر کرنے کے باوجود کفرو شرک کی گندگیوں میں ملوث تھے ان کو شرم دلاتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے جب اپنے ارد گرد مشرکانہ معاشرہ ، بت گرا اور بت پرست خاندان اور طرح طرح کی جاہلانہ رسموں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو دیکھا اور غور کیا تو انہوں نے ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کفر و شرک کے ہر طریقے کا انکار کردیا ۔ انہوں نے کسی مصلحت کا سہارا لئے بغیر صاف صاف اعلان کردیا کہ جن لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے معبود گھڑ کر ان کی عبادت و بندگی کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے وہ قطعاً باطل ، جھوٹ اور ایک بےحقیقت اور بےبنیاد بات ہے۔ جب انہوں نے اس کلمہ حق کو بلند کیا تو ہر شخص ان کی جان کا دشمن بن گیا اور ان کو ہر طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کو ایک زبردست آگ میں جھونک دیا گیا ، وطن سے بےوطن ہوئے ، گھر بار کی ہر راحت و آرام سے محروم کردیئے گئے عراق ، فلسطین ، حجاز اور دوسری جگہوں میں مسلسل گشت کر کے اس کلمہ حق کو بلند کرتے رہے جس میں ساری انسانیت کی فلاح اور بہبود کے راز پوشیدہ ہیں ۔ انہوں نے اس کلمہ حق کے لئے پوری زندگی ہجرت اور مشکلات میں گزار دی لیکن کفر و شرک سے سمجھوتہ نہیں کیا اور کلمہ حق کو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بنا کر باقی رکھا ۔ کفار قریش سے کہا جا رہا ہے کہ حق و صداقت اور کلمہ باقیہ کی یہی وہ سیدھی سچی راہ ہے جس کو نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پیش فرما رہے ہیں ۔ اس میں یہ ارشارہ موجود ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) اور ان کے راستے پر چلنے والوں کو کامیاب و بامراد کیا اسی طرح وہ اللہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں کو عظمت کی بلندیوں پر پہنچا کر رہے گا ۔ فرمایا کہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ ٔ حسنہ پر چلنے والے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لانے کے بجائے وہ ان کی مخالفت کر رہے ہیں اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کا مذاق اڑا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک بےحقیقت جادو ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیثیت کو لوگوں کی نظروں میں کم کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ مکہ اور طائف میں ایسے بڑے ، صاحب حیثیت اور مال دار لوگوں کی کمی نہیں تھی جن کو نبی بنایا جاتا تو بات سمجھ میں آجاتی لیکن ایک یتیم و نادار شخص کو نبی بنا کر بھیجنا ہماری سمجھ میں نہیں آتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا ان کی جہالت اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ اللہ کی رحمت یعنی نبوت کو بھی اپنی مرضی کے مطابق اپنے تابع کرنا چاہتے ہیں کہ جس کو وہ چاہیں اس کو نبی بنا دیا جائے اور جس کو وہ نہ چاہیں اس کا وہ انکار کردیں ۔ فرمایا کہ ان کی تو نبوت ہی کیا دنیا کی معیشت اور دولت میں بھی یہی خواہش ہے کہ وہ ان کی مرضی کے تابع ہوجائے جس کو وہ چاہیں دیں اور جس کو نہ چاہیں اس کو بھوکا مار دیں۔ فرمایا کہ ایسے لوگ اس بات کو یاد رکھیں کہ نبوت و رسالت ہو یا زندگی گزارنے کے اسباب کی تقسیم یہ سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جب اور جہاں اور جس کو چاہتا ہے نبوت کے اعلیٰ مقام کے لئے منتخب کرلیتا ہے۔ اس طرح اس نے معیشت یعنی مال و دولت کی تقسیم کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے ورنہ انسان تو اتنا خود غرض ہے کہ اگر اس کے ہاتھ میں دوسروں کا رزق دیدیدا جاتا تو وہ اپنے علاوہ سب کو ہر طرح کے رزق اور مال و دولت سے محروم کردیتا ۔ فرمایا کہ اللہ کا اپنا نظام ہے وہ جس کو جتنا دینا چاہتا ہے کم یا زیادہ عطاء فرما دیتا ہے لہٰذا وہ نبوت و رسالت کو مال و دولت کی ترازو میں تول کر نہیں دیتا بلکہ اپنی مرضی سے دیتا ہے۔ فرمایا کہ مال و دولت کی کثرت انسانی شرافت کا معیار نہیں ہے کہ جس کے پاس زیادہ مال و دولت ہے وہ زیادہ بڑا آدمی ہے اور وہ ہر چیز کا مستحق ہے بلکہ انسانی شرافت کا معیار تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔ مال و دولت جہاں خیر کا ذریعہ ہے وہیں وہ اللہ کے نزدیک ایک حقیر چیز بھی ہے۔ فرمایا کہ اگر عام لوگوں کے کفر میں مبتلا ہو کر بھٹک جانے اور ڈگمگانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اللہ تمام کفار و مشرکین پر سونے چاندی اور مال و دولت کی بارش کردیتا۔ ان کے چاروں طرف مال و دولت کے ڈھیر لگا دیتا ان کی سونے چاندی کی چھتیں ، سونے چاندی کی سیڑھیاں ، دروازے اور تخت ہوتے لیکن کیا یہ سونے چاندی کے ڈھیر ان کو آخرت کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوتے ، ہرگز نہیں ۔ لہٰذا کفار قریش کا یہ کہنا کہ مکہ اور طائف کے بڑے لوگوں پر اس قرآن کو نازل کیوں نہ کیا گیا تو وہ سن لیں کہ انسان مال و دولت سے بڑا آدمی نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذات شرافت اور اخلاق سے بڑا بنتا ہے۔ یا وہ بڑا آدمی ہوتا ہے جس کو اللہ اپنے پیغام کے لئے منتخب کرلیتا ہے۔
Top