Baseerat-e-Quran - Az-Zukhruf : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 46 تا 56 : یضحکون ( وہ مذاق اڑاتے ہیں ، ہنستے ہیں) اخت (بہن ، جنس) ینکثون (وہ توڑ ڈالتے ہیں) مھین (جس کی کوئی عزت نہ ہو) اسورۃ ( سوار) (کنگن ، پہننے کا زیور) مقترنین ( مقترن) (ملے ہوئے ، جڑے ہوئے) استخفف ( اس نے ہلکا کیا ، ذلیل کیا) اسفوا ( انہوں نے بھڑکایا) سلف (گزرے ہوئے) تشریح : آیت نمبر 46 تا 56 : زیر مطالعہ آیات سے پہلے بتا دیا گیا تھا کہ جتنے پیغمبر بھی بھیجے گئے تھے انہوں نے اپنی اپنی امتوں کو توحید کی تعلیم دے کر ان کے سامنے اس حقیقت کو پیش کیا تھا کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہی ہر طرح کی عبادت و بندگی کا مستحق ہے۔ وہ خود بھی توحید پر عمل کرتے رہے اور انہوں نے زندگی بھر اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہیں کی ۔ جن سعادت مندوں نے ان کی اطاعت کی وہ بھی اللہ کی توحید اور اس کی بندگی کرتے رہے۔ وہی کامیاب و با مراد ہوئے لیکن جنہوں نے توحید کا راستہ چھوڑ کر اللہ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کر کے ان کی عبادت و پرستش کی ان کو بار بار آگاہ کیا گیا کہ وہ اپنے اس طرز عمل سے توبہ کرلیں لیکن انہوں نے پیغمبروں کی بات کو سمجھنے کی کوشش نہ کی ۔ جب ان کی مہلت کی مدت ختم ہوگئی تو ان پر اتنے شدید عذاب آئے کہ ان کی تہذیب ، ترقیات اور خود ان کا اپنا وجود بھی تہس نہس کردیا گیا ۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ اسی صراط مستقیم پر ہیں جس پر اللہ کے تمام پیغمبر چلتے آئے ہیں لہٰذا آپ کسی کی پرواہ کئے بغیر اللہ کے دین کو پھیلانے کی جدوجہد کرتے رہیے۔ اللہ آپ کو اسی طرح مدد کرے گا جس طرح اس نے اپنے پیغمبروں کی مدد کی تھی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کر کے سمجھایا گیا ہے کہ جس طرح اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کی تھی جب فرعون اور اس کی فوج کو سمندر میں غرق کردیا گیا تھا۔ پھر کوئی اس کی مدد کو نہ آسکا تھا ۔ فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے بھرے دربار میں اس بات کا اعلان کیا کہ مجھے اللہ نے بھیجا ہے تا کہ اے فرعون تو اور تیری قوم جس گمراہی میں مبتلا ہوگئے ہو اس سے توبہ کرلو ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا اور ید بیضا کے معجزات دکھائے تو پوری قوم اس سے متاثر ہونا شروع ہوگئی۔ فرعون اور اس کے خوشامدی درباریوں نے پہلے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مذاق اڑانا شروع کیا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عزت و عظمت بڑھتی جا رہی ہے تو انہیں فکر پیدا ہوگئی۔ انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا تو ان کی حکومت و سلطنت اور اقتدار و اجارہ داری کا رعب لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گا ۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اثرات کو مٹانے کی بھر پور کوششیں شروع کردیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کی مسلسل نا فرمانیوں کی وجہ سے ان پر نو ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے تا کہ بڑے عذاب سے پہلے ان کو آگاہ اور خبردار کردیا جائے۔ سورة اعراف میں اس کی تفصیل آ چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلطنت فرعون میں شدید قحط پڑگیا اتنی شدید بارشیں ہوئیں کہ جن سے بستیاں اور کھیتیاں تباہ و برباد ہو کر رہ گئیں ۔ ٹڈی دل نے اتنا شدید حملہ کیا کہ ان کے کھیت اور کھلیانوں کو چٹ کر گئے ۔ پوری سلطنت میں جوئیں اور سرسریاں پیدا ہونا شروع ہوئیں جن سے انسان ، ان کے مویشی اور غلے کے گودام تک متاثر ہونا شروع ہوگئے۔ مینڈکوں کا ایک سیلاب سا آگیا جس سے پوری قوم کا چلنا پھرنا دشوار ہوگیا۔ پھر خون کا عذاب بھی نازل ہوا جس سے ان کی نہریں ، تالاب ، چشمے اس طرح متاثر ہوئے کہ پوری قوم ایک ہفتے تک صاف پانی سے محروم ہوگئی۔ یہ وہ مسلسل عذاب کی شکلیں تھیں جن سے پوری قوم شدید مشکلات کا شکار ہوگئی تھیں ۔ ان پر جب بھی کوئی عذاب آتا تو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آ کر درخواست کرتے کہ اے جادوگر ! اگر یہ عذاب ہم سے ٹل گیا تو ہم آپ کی ہر بات مانیں گے۔ جب وہ عذاب ٹل جاتا تو وہ پھر سے اپنی نا فرمانیوں میں لگ جاتے تھے ۔ ان کی جہالت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اے جادوگر ! کہہ کر پکارتے تھے ، کیونکہ اس زمانہ میں جادو میں کمال ، علم کا کمال شمار ہوتا تھا لیکن در حقیقت وہ اس لفظ سے احترام کے پردے میں صرف اپنا کام نکالنا چاہتے تھے یعنی ان کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت ایک جادوگر یا عالم کی تھی مگر وہ ان کو نبی ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے منافقین جب نبی کریم ﷺ کی مجلس میں آتے اور کوئی بات دوبارہ سمجھنا چاہتے تھے تو کہتے تھے ” راعنا “ یعنی ہماری رعایت کیجئے لیکن وہ اس لفظ کو اس طرح زبان دبا کر ادا کرتے تھے کہ جس کے معنی چرواہے اور جاہل و احمق کے ہوجاتے تھے۔ سننے والے یہ سمجھتے کہ وہ ” راعنا “ کہہ رہے ہیں لیکن در حقیقت وہ نبی کریم ﷺ پر ” تبرا “ کرتے تھے یہ الفاظ کے کھلاڑی دنیا میں ہمیشہ یہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ فرعون نے ایک دن درباریوں سے کہا ۔ یا ملک بھر میں اپنے نمائندے بھیج کر کہلا دیا کہ کیا میں پوری سلطنت کا مالک نہیں ہوں ؟ کیا میرے نیچے ( دریائے نیل سے) نہریں نہیں بہہ رہی ہیں جن سے ہر طرف سر سبزی و شادابی ہے ؟ اور قوم ترقی کر رہی ہے ؟ اس نے کہا کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ میری سلطنت کا رعب ہر شخص کے دل پر چھایا ہوا ہے ؟ اس نے پوچھا کہ یہ بتائو میں بہتر ہوں یا موسیٰ اور ان کے ساتھ بہتر ہیں ؟ جن کا یہ حال ہے کہ نہ تو ان کے پاس حکومت و سلطنت ہے نہ رعب ہے نہ مال و دولت کی کثرت ہے بلکہ ( نعوذ باللہ) وہ ایک معمولی سے آدمی ہیں جو اس طرح باتیں کرتے ہیں کہ ان کی دلیلوں میں کوئی جان نہیں ہوتی ۔ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تو ان کی سلطنت کا رعب کہاں ہے کیا وہ اس زمانہ کے دستور کے مطابق سونے کے کنگن اور لشکر کے ساتھ نکلتے ہیں ۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) سچے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن اور چاروں طرف ان کے فرشتوں کی فوج ہونا چاہیے تھی ۔ چونکہ فرعون نے دنیا داروں کے سامنے یہ دنیاوی موثر انداز اختیار کیا تو لوگوں نے اس کی بات کو مان لیا کیونکہ زبردست زر پرستوں کی باتوں کو خوب سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مال و دولت ہی سب کچھ ہوتا ہے وہ اسی زبان کو سمجھتے ہیں ۔ چونکہ پوری قوم دولت پرست ، اللہ کی نافرمان اور سر کش تھی اس لئے فرعون کی باتوں نے ان پر بہت اثر کیا اور اس طرح پوری قوم ایک مرتبہ پھر فرعون کے مکرو فریب اور چکر میں آگئی۔ چونکہ پوری قوم نے توبہ کرنے کے بجائے نافرمانی اور گناہوں کا راستہ اختیار کرلیا تھا اس لئے اللہ نے ساری نافرمان قوم اور فرعون کو پانی میں ڈبو کر ختم کردیا اور ان کی زندگیوں کو ہر ایک کے لئے نشان عبرت بنا دیا ۔ اور وہ بنی اسرائیل جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آئے تھے اللہ نے ان کو نجات عطاء فرما کر عظمتیں عطاء فرما دیں۔
Top