Baseerat-e-Quran - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
یقینا اللہ ان مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ لوگ ایک درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے۔ پھر اللہ نے ان کے دلوں کے حال کو جان لیا تھا۔ پھر اس نے ان پر سکینہ (سکون قلب) نازل کیا اور ان کو اس کے بدلے میں ایک ایسی فتح عنایت کی جو قریب ہی تھی۔
لغات القرآن آیت نمبر (18 تا 21 ) ۔ رضی (راضی ہوگیا) ۔ تحت الشجرۃ (درخت کے نیچے) ۔ السکینتہ (اطمینان و سکون) ۔ اثاب (اس نے بدلہ دیا۔ پلٹا دیا) ۔ عجل (اس نے جلدی کی ) ۔ کف (اس نے روک لیا) ۔ اخری (دوسری) ۔ لم تقدروا ( تم نے قابو نہیں پایا) ۔ تشریح : آیت نمبر (18 تا 21 ) ۔ ” صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار قریش نے اس غلط فہمی کا زبردست پروپیگنڈا کر رکھا تھا کہ اہل ایماں عمرہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ جنگ کرنے اور مکہ مکرمہ پر قبضہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے کفار قریش کو سفارتی سطح پر سمجھانے کی کوشش کی اور بتا دیا کہ ہمارا مقصد صرف عمرہ ادا کرنا ہے جنگ کرنا نہیں۔ آخر میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان غنی ؓ کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ ہم صرف عمرہ ادا کر کے چلے جائیں گے۔ حضرت عثمان نے بھی کفار قریش کو سمجھانے کی کوشش کی مگر کفار نے کسی بھی بات کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ اس بحث مباحثہ میں اتنی دیر ہوگئی کہ حضرت عثمان کے نہ آنے سے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ میں بےچینی بڑھنا شروع ہوئی۔ اسی دوران یہ خبر پھیل گئی کہ کفار قریش نے حضرت عثمان غنی ؓ کو شہید کردیا۔ اس خبر کے پھیلتے ہی ایک کہرام مچ گیا نبی کریم ﷺ ایک کیکر کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ کرام ؓ سے بیعت لی کہ جب تک ہم حضرت عثمان کے خون کا بدلہ نہیں لے لیتے اس وقت تک ہم واپس نہیں جائیں گے یعنی ہم مرجائیں گے مگر دشمن کو پیٹھ دکھا کر نہ جائیں گے۔ اسلامی تاریخ میں اس بیعت کو ” بیعت رضوان “ کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں چودہ سو صحابہ کرام ؓ نے عہد کیا جن میں خلفاء راشدین ؓ بھی شریک تھے چونکہ حضرت عثمان ؓ جو خلیفہ راشد ہیں وہ مکہ میں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ اس طرح اس بیعت رضوان میں چاروں خلفاء راشدین شریک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام صحابہ کرام ؓ کو جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر درخت کے نیچے بیعت کی تھی ان کے متعلق فرمایا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ فرمایا کہ اللہ کو صحابہ کرام ؓ کے جذبے اور خلوص کا اچھی طرح علم تھا اس لئے اللہ نے ان پر ” سکینہ “ نازل فرمایا یعنی اس بےسکونی، مایوسی اور گھبراہٹ کے وقت ہر طرح کے اضطراب اور پریشانی کے مقابلے کے لئے ان کے دلوں میں اطمینان و سکون پیدا فرمادیا اور اس واقعہ کو بہت قریبی فتح کی بنیاد بنا دیا۔ اس میں فتح مکہ اور فتح خیبر کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ اب تم بہت جلد (فتح خیبر کے ذریعہ) بہت سا مال غنیمت بھی حاصل کرو گے اور بہت جلد مکہ فتح ہو کر ہر طرف دین اسلام کا فروغ ہوگا جس سے ہزاروں فائدے اور مال غنیمت ہاتھ آئے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ ایک بڑا نازک وقت تھا کیونکہ مدینہ منورہ کے سب لوگ حدیبیہ میں موجود تھے مدینہ منورہ خالی تھا یہود اور مشرکین کے قبیلے ان پر چڑھائی کرسکتے تھے۔ ادھر جو صحابہ کرام ؓ عرب کے رواج کے مطابق صرف ایک ایک تلوار ہاتھ میں لے کر عمرہ کی نیت سے آئے تھے اور کفار کے بنائے گئے گڑھ کے قریب تھے وہ کفار پر حملہ کر کے ان کو شدید نقصان پہنچا سکتے تھے لیکن اللہ نے ان کفار کو اس طرف سوچنے کا موقع ہی نہ دیا اور مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھا یہ بھی اللہ کی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمت تھی۔ کیونکہ اللہ کی یہ مثیت تھی کہ وہ اہل ایمان کے خلوص اور ہمت و طاقت کو ایک نشانی بنا دے اور ان کو ہدایت کے جو بھی مقام اور مرتبے حاصل تھے ان میں اور اضافہ و ترقی فرما دے ۔ اللہ نے ساتھ ہی ساتھ اس بات کی خوش خبری بھی عطا فرما دی کہ اس صبر و تحمل اور سکینہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہیں ان علاقوں پر بھی فتح و نصرت عطا فرمائے گا جو ابھی تک مسلمانوں کے ہاتھ میں تو نہیں آئے لیکن اللہ نے ان کو گھیر لیا ہے اور بہت جلد وہ اہل ایمان کو عطا کردیئے جائیں گے کیونکہ اس کائنات میں ساری طاقت وقدرت صرف اللہ کے لئے ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان میں شریک تمام صحابہ کرام ؓ اور خلفاء راشدین ؓ سے راضی ہونے کی خوش خبری عطا فرمائی ہے یعنی جس طرح غزہو بدر میں شریک صحابہ کرام ؓ کی یہ شان ہے کہ اللہ ان سے ہمیشہ کے لئے راضی ہوگیا اسی طرح بیعت رضوان میں شریک صحابہ کرام ؓ سے راضی ہوجانے کی خوش خبری بھی عطا کی گئی ہے چنایچہ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق اس موقع پر فرمایا ” انتم خیر اھل الارض “ یعنی تم روئے زمین کے تمام لوگوں سے بہتر ہو۔ (بخاری و مسلم) ۔ ام بشر سے روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ لا ید خل النا احد ممن بایع تخت الشجرۃ (مسلم شریف) ۔ یعنی جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں نہ جائے گا۔ قرآن کریم اور ان روایات سے یہ ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام وہ ہیں جن سے اللہ قیامت تک کے لئے راضی ہوگیا ہے یہ نہ صرف حاحبان ایمان ہیں بلکہ اللہ نے ان کی مغفرت کا وعدہ بھی فرمالیا ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ (نعوذ باللہ) حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد تمام صحابہ کرام ؓ مرتد ہوگئے تھے وہ لوگ ان آیات اور احادیث کی روشنی میں غور کریں کہ وہ اللہ کے پیارے نبی ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کے متعلق کس قدر بےہودہ عقیدہ رکھتے ہیں اور اپنی عاقبت کی فکر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کی اطاعت و محبت اور صحابہ کرام ؓ کی عظمت وشان کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
Top