Baseerat-e-Quran - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
(اے نبی ﷺ بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ‘ بشارت دینے والا اور (برے انجام سے ) ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 8 تا 10 : شاھد (گواہی دینے والا) تعزروا (تم مدد کرو) توقروا ( تم عزت واحترام کرو) تسبحوا (تم پاکی بیان کرو) ‘ بکرۃ ( صبح) اصیل (شام) یبایعون (بیچ دیتے ہیں۔ بیعت کرتے ہیں) ید اللہ ( اللہ کا ہاتھ) ‘ فوق (اوپر) ینکث ( وہ توڑ ڈالتا ہے) ‘ اوفی (اس نے پورا کیا) ‘ سیئوتی ( بہت جلد وہ دے گا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 8 تا 10 : اس سے پہلی آیات کی تشریح میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ اور آپ کے ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام ؓ عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو کفار مکہ بوکھلا گئے اور اس تصور سے کانپ اٹھے کہ اگر نبی کریم ﷺ اور بدر ‘ احمد ‘ خندق وغیرہ کے فاتح صحابہ کرام ؓ مکہ مکرمہ سے ہو کر بھی چلے گئے تو ساری دنیا میں قریش کا رعب ختم ہوجائے گا اور ان کی حیثیت کو بھی زبردست دھکا پہنچے گا۔ دوسری طرف بیت اللہ کی حاضری کا قانون یہ تھا کہ دوست یا دشمن کسی کو بھی بیت اللہ کی زیارت سے روکنا حرام سمجھا جاتا تھا۔ اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے سارے قریشی سردار سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی طرح یہ ثابت کردیا جائے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ عمرہ کے لئے نہیں بلکہ جنگ کرنے اور مکہ پر قبضہ کرنے کے لئے آئے ہیں چناچہ انہوں نے متعدد ٹولیوں کو بھیج کر حملہ کرنے کی کوشش کی جس کو نبی کریم ﷺ نے ور صحابہ کرام ؓ نے ناکام بنادیا۔ مکہ والوں کو سمجھانے کے لئے آپ نے سب سے پہلے خراش ابن امیہ خزاعی کو اس پیغام کے ساتھ قریش مکہ کے پاس بھیجا کہ ہم صرف بیت اللہ کی زیارت کرنے آئے ہیں اور بس۔ کفار مکہ اس قدر بوکھلائے ہوئے تھے کہ وہ حرم میں اس اخلاقی اصول کو بھی بھول گئے تھے کہ کسی کے قاصد اور سفیر کو نہ تو قتل کیا سکتا ہے اور نہ اس کو کسی طرح کی اذیت دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے حضرت خراش کو قتل کرنا چاہا جب کچھ لوگ بیچ میں پڑگئے تو ان کی جان بچ گئی لیکن ان کے اونٹ کو جان سے مار ڈالا اور وہ کسی طرح جان چھڑا کر واپس آگئے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے مشورہ کے بعد حضرت عثمان ؓ کو بھیجا تاکہ وہ مکہ والوں کو ان کی اپنی حرکتوں سے روکیں اور یقین دلائیں کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ محض عمرہ اور زیارت بیت اللہ کیلئے آئے ہیں چونکہ حضرت عثمان ؓ کا قریش میں ایک خاص مقام تھا اس لئے انہوں نے حضرت عثمان کو تو کچھ نہ کہا البتہ یہ کہا کہ ہم کسی حال میں حضرت محمد ﷺ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ حضرت عثمان سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو تو عمرہ ادا کرکے واپس چلے جائو۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میں تنہا عمرہ ادا نہ کروں گا جب تک میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ عمرہ ادانہ کرلیں۔ کفار نے اس بحث مباحثے میں ان کو روک لیا۔ ادھر مسلمانوں کے لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ کفار قریش نے حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیا۔ اس افواہ سے مسلمان بےقابو ہونے لگے اور آپ ﷺ نے بھی اس وقت تک حدیبیہ سے واپس جانے سے انکار کردیا جب تک خون عثمان ؓ کا بدلہ نہ لے لیا جائے۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی اپنے اس عزم کا اعلان کردیا کہ اب کچھ بھی ہوجائے ہم یہاں سے واپس نہ جائیں گے۔ بیشک ہم جنگ کے ہتھیار ساتھ نہیں لائے لیکن اپنی جانیں لڑا دیں گے خون عثمان ؓ کا بدلہ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ آپ ﷺ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور تمام صحابہ کرام ؓ سے بیعت لی۔ تمام صحابہ کرام ؓ نے بیعت کرلی اس وقت حضرت عثمان موجود نہ تھے تو آپ نے حضرت عثمان ؓ کی طرف سے خود اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے۔ اس طرح آپ نے اپنے دست مبارک کو حضرت عثمان کا ہاتھ قراردے کر ان کی شان اور عظمت میں قیامت تک کے لئے چار چاند لگا دیئے۔ جب کفار قریش کو مسلمانوں کے جوش و خروش اور اس بیعت کا علم ہوا تو انہوں نے اطلاع کرادی کہ حضرت عثمان ؓ زندہ ہیں اور ان کے شہید کئے جانے کی اطلاع غلط ہے۔ اس موقع پر جو بیعت لی گئی اس کو ” بیعت رضوان “ کہا جاتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان میں شریک تمام صحابہ کرام ؓ کے اس پر خلوص جذبے کو پسند فرمایا اور ارشاد ہوا کہ جس نے بھی نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے گویا اس نے اللہ سے بیعت کی ہے۔ آپ کے دست مبارک کو اللہ نے اپنا ہاتھ قرار دے کر حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے جذبے کو ابدی عظمت سے ہم کنار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی ﷺ ! بیشک ہم نے آپ ﷺ کو ” شاہد “ بنا کر بھیجا ہے یعنی حققیت اور سچائی کا اظہار کرنے والا اور قیامت میں اہل ایمان کی صداقتوں اور ایمان کی گواہی دینے والا اور بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے یعنی حسن عمل کرنے والوں کے بہتر انجام کی خوش خبری دینے والا اور ہر خطا کار کو اس کے برے انجام سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ ہو شخص آپ پر ایمان لائے اور وہ اہل ایمان ان کی عزت و توقیر کے ساتھ ساتھ ہر طرح ان سے تعاون کریں۔ صبح و شام اللہ کی حمد و ثنا کریں۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! جب آپ (ان سے صحابہ کرام سے درخت کے نیچے) بیعت لے رہے تھے تو در حقیقت وہ (ہمارے نمائندے اور بندے) حضرت محمد ﷺ سے نہیں بلکہ اللہ سے بیعت کر رہے تھے وہ ہاتھ ان کا نہ تھا بلکہ اللہ کا ہاتھ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب جو شخص بھی اس عہد کو توڑے گا اس کا وبال اسی پر پڑے گا اور جو اپنے اس عہد اور بیعت کی پابندی کرے گا تو وہ وقت بہت قریب ہے جب اللہ ان لوگوں کر اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
Top