Baseerat-e-Quran - Al-Hujuraat : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ١ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ١ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا يَسْخَرْ : نہ مذاق اڑائے قَوْمٌ : ایک گروہ مِّنْ قَوْمٍ : (دوسرے) گروہ کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُوْنُوْا : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُمْ : بہتر ان سے وَلَا نِسَآءٌ : اور نہ عورتیں مِّنْ نِّسَآءٍ : عورتوں سے ، کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُنَّ : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ : بہتر ان سے وَلَا تَلْمِزُوْٓا : اور نہ عیب لگاؤ اَنْفُسَكُمْ : باہم (ایکدوسرے) وَلَا تَنَابَزُوْا : اور باہم نہ چڑاؤ بِالْاَلْقَابِ ۭ : بُرے القاب سے بِئْسَ الِاسْمُ : بُرا نام الْفُسُوْقُ : گناہ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ : ایمان کے بعد وَمَنْ : اور جو ، جس لَّمْ يَتُبْ : توبہ نہ کی (باز نہ آیا) فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ : وہ ظالم (جمع)
اے ایمان والو ! مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کی کسی جماعت کا مذاق نہ اڑائے۔ ممکن ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں عورتوں پر ہنسیں ۔ شاید کہ جو عورتیں مذاق اڑانے والی ہیں ان سے وہ بہتر ہوں جن کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کو طعنے مت دو ، ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔ ایمان لانے کے بعد فسق (نافرمانی) کا نام ہی برا ہے۔ اور جو لوگ (ان باتوں سے) توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر (11 تا 12 ) ۔ لا یسخر (مذاق نہ اڑائے) ۔ لا تلمزوا (طعنے مت دو ) ۔ لا تنابزوا (برے نام نہ رکھو) ۔ القاب (لقب۔ نام رکھنا) ۔ بئس (برا ہے) ۔ لم یتب (توبہ نہ کی) ۔ اجتنبوا (بچتے رہو) ۔ لا تجسسوا (ٹوہ میں نہ لگو) ۔ لا یغتب (غیبت نہیں کرتا) ۔ ایحب (کیا پسند ہے ؟ ) ۔ ان یا کل (یہ کہ وہ کھائے) ۔ لحم (گوشت ) ۔ کر ھتم (تم نے برا سمجھا ) ۔ تشریح : آیت نمبر (11 تا 12 ) ۔ ” آپس میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، طعنے دینا، کسی کو برے الفاظ و القاب سے پکارنا، بدگمانیاں کرنا، دوسرے کے عیب تلاش کرنا اور پیٹھ پیچھے اپنے بھائیوں کی غیبت کرنا یہ سب وہ باتیں ہیں جن سے فسادات اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور ملت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان سب برائیوں اور گناہوں سے بچنے کی سخت تاکید گی ہے۔ ایک مومن سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایمان لانے کے بعد طعنے دینے، بدکلامی کرنے اور بد زبانی کرنے جیسی برائیوں میں مبتلا ہوگا۔ مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ محبت و اخلاص کا پیکر ہوتا ہے جس سے کسی کو کسی طرح کی اذیت نہیں پہنچتی۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتے جب تک تم میں باہمی محبت و اخلاص نہ پیدا ہوجائے۔ انسانی تکبر کو توڑنے کے لئے آپ نے فرمایا کہ ” کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم اس پر عمل کرنے لگو تو تمہارے درمیان محبت پیدا ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرو اور اس کو (اپنے معاشرہ میں) خوب رواج دے کر عام کردو۔ جب کوئی آدمی ہر وقت دوسرے کی نجی زندگی اور اس کے حالات کی کھوج میں لگ جاتا ہے اور بد گمانیوں کے دائرے میں گھومنے لگتا ہے تو وہ اپنی اصلاح اور اپنے عیبوں پر نگاہ کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : ” تم اپنے بھائی کے عیب کو ظاہر نہ کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ اس کو تو معاف کر دے اور تمہیں اس (عیب) میں مبتلا کر دے۔ زیر مطالعہ آیات میں ان ہی باتوں کو بیان فرمایا گیا ہے جن کی تفصیل یہ ہے۔ (1) ۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرد یا عورت کسی دوسرے شخص یا کسی گروہ کا مذاق نہ اڑائے کیونکہ ممکن ہے جن لوگوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں۔ اصل میں کسی کا مذاق اڑانا، پھبتیاں کسنا اور جملے بازی کرنا اس کو ذلیل و رسوا کرنا اور اس کی دل شکنی کرنے کے علاوہ تکبر اور غرور کا بھی ایک انداز ہے۔ کیونکہ جب کوئی کسی کا مذاق اڑاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور افضل و اعلیٰ سمجھتا ہے یعنی وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں تو ہر عیب سے پاک ہوں سارے عیب اور خرابیاں دوسروں کے اندر موجود ہیں۔ یہ تکبر کا انداز ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے اور ایسے شخص یا گروہ کا اپنی ہر اصلاح سے محروم فرما دیتے ہیں کیونکہ ایمان لانے کے بعد فسق و نافرمانی کا ہر اندازا انتہائی ناپسندیدہ ہے اگر اس نے اپنی اصلاح کی فکر نہ کی تو اس کا شمار ظلموں اور بےانصافوں میں ہوگا۔ (2) ۔ بدگمانیوں سے بچنا اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں کسی کی طرف سے کوئی بد گمانی اور غلط خیال قائم ہوجائے تو اس کی ہر اچھی بات بھی اس کو بری لگنے لگتی ہے۔ اس لئے ہر طرح کی بدگمانیوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ یہی بدگمانیاں بڑھتے بڑھتے بعض بناہوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ بدگمان آدمی دوسروں پر تہمت و الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتا۔ نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے۔ وایا کم و الظن فان الظن اکذب الحدیث : ” یعنی تم بعض گمانوں سے بچا کرو کیونکہ گمان ایک جھوٹی بات کا نام ہے۔ “ (3) ۔ تجسس۔ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمان ہوجاتا ہے تو پھر یہ دائرہ پھیلنا شروع ہوجاتا ہے اور گمان کرنے والا دوسرے کے عیب کی جستجو اور تلاش میں لگ جاتا ہے جو کہ گناہ ہے اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” مسلمانوں کی غیبت نہ کرو نہ کسی کے عیب تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص کسی مسلمان کے عیب تلاش کرتا ہے تو اللہ اس کو اس کے گھر کے اندر بھی رسوا اور ذلیل کر کے چھوڑتا ہے۔ (قرطبی) ۔ (4) ۔ غیبت غیبت در حقیقت معشرہ کی وہ خرابی ہے جو اس معاشرہ کو بد ترین نتائج سے دو چار کردیتی ہے کیونکہ غیبت اس کو کہتے ہیں کہ کسی مسلمان کے بپٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے کہ اگر اس شخص کے منہ پر وہی بات کہی جائے تو اس کو اذیت پہنچے۔ لیکن اگر کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے جو اس میں نہیں ہے تو اس کو اتہام و الزام لیتے ہیں۔ غیبت اور کسی پر غلط الزام لگانا دونوں ہی سخت گناہ ہیں جس کی معافی تو بہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ غیبت کرنے والا درحقیقت اپنے بھائی کی عزت کی دھجیاں بکھیرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو گوارہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ یقینا وہ کسی حال میں اس کو گوارا نہیں کرسکتا۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میرا ایک ایسی جماعت پر گذر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے بدن کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائی کی غیبت کرتے اور اس کی آبرو سے کھیلتے تھے (بغوی) ۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کی بری عادت سے بچنے کی سخت تاکید کی ہے اور فرمادیا ہے کہ اگر تم نے اس بری عادت سے توبہ نہ کی تو سخت نقصان اٹھائو گے اور اگر تم نے توبہ کرلی تو اللہ تمہاری توبہ کو قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (5) ۔ طعنے دینا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ ” لمز “ سے بچیں ۔ لمز کے معنی ہیں کسی کے عیب نکالنا اور اس کو طعنے دینا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی کو کسی طرح سے بھی طعنے دیتا ہے یا اس کے عیب تلاش کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے وہ نہ صرف اس کی توہین کرتا ہے بلکہ اس کے عیب تلاش کرنے اور طعنے دینے میں اس بات کو بھول جاتا ہے کہ وہ خود کتنے عیبوں میں مبتلا ہے اس طرح وہ پنی اصلاح سے غافل ہوجاتا ہے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر وہ جاتا ہے۔ اسے ہر شخص میں عیب ہی عیب نظر آتے ہیں۔ یہ بھی تکبر اور غرور کی ایک شکل ہے جو اللہ کے نزدیک سخت باپسند یدہ ہے۔ (6) ۔ برے القاب سے پکارنا۔ بعض لوگ اپنی بڑائی اور برتری ثابت کرنے کے لئے دوسرے شخص کو ایسے برے برے الفاظ اور القاب سے یاد کرتے ہیں جو اس کی توہین ہوتی ہے۔ جیسے کسی کو اندھا، لولا، لنگڑا اور کانا کہہ دیا۔ کسی کی ذات میں کیڑے نکال دیئے اسی طرح اگر کسی سے غفلت میں کوئی گناہ ہوگیا اور اس نے اللہ سے معافی بھی مانگ لی تو اب یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس کے گناہ کا نام لے کر اس کو پکارے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی کو ایسے گناہ پر شرم دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو ہو سکتا ہے اللہ اس شرم دلانے والے کو اس گناہ میں مبتلا کر کے اسے ذلیل و رسوا کردے۔ (الحدیث) اس سے معلوم ہوا کہ برے القاب و الفاظ ہی نہیں بلکہ کسی کو اس کے گناہوں پر شرم دلانا یا اس کو ذلیل و رسوا کرنا ایک غلط حرکت ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک مومن کو دوسرے مومن پر یہ حق ہے کہ وہ اس کو ایسے نام اور لقب سے پکارے جو اسے پسند ہو۔ حضور اکر م ﷺ کی سیرت پاک کے مطالعہ سے بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ نے دوسروں کو ایسے الفاظ سے یاد فرمایا ہے جس سے ان کی عزت میں چارچاند لگ گئے ہیں اور صحابہ کرام ؓ نے بھی ان القابات کو اپنے نام کا حصہ قرار دیا ہے جیسے ٭ صدیق ‘ فاروق ‘ غنی ‘ بوتراب ‘ اسد اللہ ‘ سیف اللہ ‘ امین الامت ‘ ابوہریرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی رسول اللہ ﷺ کی اس مبارک سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Top