Baseerat-e-Quran - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
وہ دن جب اللہ سارے پیغمبروں کو جمع کرکے پوچھے گا (تم نے جو اسلام کی دعوت دی تھی) تو کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے ہمیں کوئی علم نہیں۔ بیشک آپ ہی تمام پوشیدہ باتوں کے جاننے والے ہیں۔
آیت نمبر 109 تا 110 لغات القرآن : یجمع (وہ جمع کرے گا) ۔ ماذا (کیا ؟ ) ۔ اجبتم (تمہیں جواب دیا گیا) ۔ لاعلم لنا (ہمیں معلوم نہیں ہے) ۔ علام الغیوب (غیب کا بہت زیادہ علم رکھنے والا) ۔ والدۃ (ماں) ۔ ایدت (میں نے مدد کی۔ تائید کی) ۔ روح القدس (پاک روح) ۔ جبرئیل امین (علیہ السلام) ) ۔ تکلم (کلام کرے گا) ۔ المھد (گود۔ پالنا) ۔ کھلا (سمجھ داری کی عمر۔ ادھیڑ عمر) ۔ علمت (میں نے سکھایا) ۔ الحکمۃ (حکمت اور عقل و سمجھ کی باتیں) ۔ تخلق (تو بناتا ہے) ۔ الطین (مٹی) ۔ کھیئۃ (جیسے شکل) ۔ الطیر (پرندہ) ۔ اذنی (میری اجازت) ۔ تنفخ (تو پھونک مارتا ہے) ۔ تبری (تو اچھا کرتا ہے) ۔ الاکمہ (پیدائشی اندھا) الابرص (کوڑہ کا مریض) ۔ تخرج (تو نکالتا ہے) ۔ الموتی (مردے) ۔ کففت (میں نے روک دیا) ۔ سحر مبین (کھلا جادو) ۔ تشریح : یہاں سے ختم سورت تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے اور آپ کے اس کلام کا جو اللہ تعالیٰ کے سوالات کے جواب میں آپ قیامت کے دن ارشاد فرمائیں گے۔ نصاریٰ کو بتانا ہے کہ قیامت ہو کر رہے گی۔ وہاں عام انسان تو کیا تمام انبیاء موجود ہوں گے۔ ان سے ان کی امتوں کے بارے میں سوال جواب ہوگا۔ وہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پوزیشن نہ تو اللہ کے بیٹے کی ہوگی نہ تین معبودوں میں سے ایک کی ہوگی جو آگے بڑھ کر اپنے ماننے والوں کو بچالیں گے۔ ان کی پوزیشن ایک نبی کی ہوگی اور وہ اپنی امت کے اعمال کے متعلق جو کچھ فرمائیں گے وہ ہر طرح سچ ہوگا۔ مندرجہ بالا آیات میں پہلے تو یہ بات کہی گئی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام انبیاء سے سوال فرمائیں گے۔ کہ تم نے جو میرا پیغام اپنی اپنی امت کو پہنچایا تھا تو اس کا تمہیں کیا جواب ملا۔ کیا تمہاری باتیں مانی گئیں اور کتنے لوگوں نے مانا۔ کتنے لوگوں نے نہ مانا۔ کتنے لوگوں نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کیا اور کتنے لوگوں نے ظلم و زیادتی کی اور ان میں کتنے منافقین تھے۔ اس کا جواب وہ یہی دیں گے کہ ہم تو تبلیغ اسلام میں دن رات مصروف تھے۔ آپ کا پیغام ان تک پہنچاتے تھے ان کا ظاہری جواب تو ہمیں معلوم ہے جو یہ ہے لیکن ان کے دل میں جو کچھ تھا اسکا ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔ اے اللہ آپ ہی عالم الغیب بلکہ علام الغیوب ہیں۔ آپ ہی سب کچھ جاننے والے ہیں۔ اس لئے ان کے دلوں کا راز اور ان کے حقیقی جواب سے آپ ہی واقف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرداً فرداً پیغمبروں سے کلام فرمائیں گے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی باری آئے گی تو اللہ تعالیٰ اپنے ان خصوصی انعامات کا ذکر کریں گے جو انہیں بخشے گئے تھے۔ ان میں سے بعض خصوصیات عام طور پر کسی دوسرے نبی کو نہیں بخشی گئیں۔ ان میں سے چند خصوصیات حسب ذیل ہیں : (1) بغیر باپ کے پیدائش۔ حضرت مریم پر انعامات (2) روح پاک (حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ) سے مدد۔ یہ مدد مختلف شکلوں میں تھی۔ (3) گہوارے میں بھی فصاحت اور بلاغت سے کلام کرنا۔ (4) عمر کے پہلے حصہ سے اخیر تک اسی فصاحت و بلاغت سے کلام کرنا۔ (5) عمر کے دوسرے حصہ میں (جب کہ وہ قیامت کے قریب تشریف لائیں گے) اس وقت بھی اسی طرح کلام کرنا۔ (6) پیغمبری (آپ بنی اسرائیل کے آخری نبی اور رسول ہیں) ۔ (7) معجزات۔ (8) بنی اسرائیل کے ظلم سے حفاظت (جس میں صلیب کا واقعہ بھی شامل ہے) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے احسانات بیان کرنے کا سلسلہ آیت ۔ ۔۔ 115 تک جاری ہے۔
Top