Baseerat-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
(اے نبی ﷺ کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی جب وہ اس کے پاس آئے۔
لغات القرآن آیت نمبر 24 تا 46 ضعیف مہمان۔ المکرمین عزت والے۔ منکرون اجنبی لوگ۔ راغ جلدی جلدی گیا۔ عجل بچھڑا۔ سمین تلا ہوا۔ اوجس اس نے چھپا دیا۔ اس نے محسوس کیا۔ غلام لڑکا۔ اقبلت وہ حاضر ہوئے صرۃ چیختی چلاتی ، آواز دیتی ۔ صلت اس نے بیٹا۔ عجوز بڑھیا۔ عقیم بانجھ، اولاد سے ناامید۔ ماخطبکم تمہارا مقصد کیا ہے ؟ ارادہ کیا ہے ؟ مسومۃ نشان لگے ہوئے۔ مسرفین حد سے آگے بڑھنے والے ۔ نبذنا ہم نے پھینکا الیم دریا۔ ملیم قابل ملامت۔ العقیم منحوس۔ ماتذر نہیں چھوڑتی ہے الرمیم ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔ تمتعوا فائدے حاصلک ر لو۔ عتوا انہوں نے منہ پھیرا۔ منتصرین بدلہ لینے والے۔ تشریح : آیت نمبر 24 تا 46 ان آیات میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت نوح، حضرت موسیٰ اور حضرت لوط اور ان کی نافرمان قوموں کے بدترین انجام خصوصاً قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ (1) حضرت ابراہیم کے واقعہ کی تفصیل اس سے پہلے سورة حجر میں گذر چکی ہے یہاں ایک مرتبہ پھر حضرت ابراہیم کے واقعہ کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس کچھ اجنبی مہمان آئے۔ حضرت ابراہیم نہایت آہستگی سے اٹھے اور گھر میں گئے اور ان کو جو چیز یعنی بچھڑا میسر تھا اس کو ذبح کر کے اور بھون کر مہمانوں کے پاس لے آئے۔ حضرت ابراہیم نے ان سے کہا کہ جو کچھ حاضر ہے اس کو کھائیے۔ حضرت ابراہیم نے محسوس کیا کہ اصرار کے باوجود انہوں نے نہیں کھایا۔ قبائلی زندگی میں کسی اجنبی مسافر کا کھانے سے پرہیز اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ جو مہمان آیا ہے وہ کسی اچھے ارادے سے نہیں آیا۔ جب مہمانوں نے حضرت ابراہیم کے اس خوف کو محسوس کیا تو انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا اے ابراہیم ! اللہ کی طرف سے ایک مجرم قوم (یعنی قوم لوط) کیط رف بھیجے گئے فرشتے ہیں۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ہم اللہ کی طرف سے آپ کو ایک بیٹے کی خوشخبری دینے کے لئے بھی بھیجے گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی سورة ہود اور سورة حجر میں تفصیل سے عرض کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے اپنے آبائی ملک عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی تو اس وقت آپ کے ساتھ آپ کی بیوی حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط تھے۔ بعد میں حضرت ہاجرہ سے آپ کا نکاح ہوا۔ حضرت ہاجرہ سے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے مگر اس وقت تک حضرت سارہ کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہو ہوئی تھی۔ جب یہ فرشتے انسانی شکل میں آئے اس وقت اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت ابراہیم کی عمر ایک سو سال اور حضرت سارہ نوے سال کی تھیں۔ فرشتوں کی زبان سے یہ سن کر اولاد کی تمنا میں بوڑھی ہوجانے والی حضرت سارہ حیران و پریشان رہ گئیں اور انہوں نے حیرت سے چلا کر پوچھا کہ میں جب کہ بوڑھی ہوچکی ہوں اور بانجھ بھی ہوں میرے گھر اولاد کیسے ہوگی ؟ فرشتوں نے عرض کیا اس میں تعجب اور پریشان ہونے کوئی باتن ہیں ہے کیونکہ اللہ کا یہی فیصلہ ہے جو ہم نے آپ تک پہنچا دیا ہے۔ اسی طرح ان فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق کیپ یدائش کی خوش خبری دی۔ حضرت ابراہیم نے پوچھا کہ اب تمہارا کیا ارادہ ہے۔ (فرشتوں نے عرض کیا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر کنکر کے پتھر برسائیں جن پر آپ کے رب نے حد سے بڑھ جانے والے مجرموں کے کنکروں پر خاص نشان ڈال دیئے ہیں۔ حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ فرشتے حضرت لوط کی قوم کو تباہ کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے قوم لوط پر عذاب کا حال سن کر فرمایا کہ وہاں تو لوط بھی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا ہمیں حکم ہے کہ ہم ان کو اور مومنوں کو بچا لیں۔ یہ بھی بتایا چونکہ ان کی بیوی کافرہ ہے اور کفار کا ساتھ دیتی رہی ہے لہٰذا اس کے علاوہ سب کی نجات کا حکم دیا گیا۔ چناچہ حضرت لوط جن کا گھرانہ مومن گھرانہ تھا اس کو اور اہل ایمان کو بچالیا بقیہ ساری قوم کو تباہ و برباد کردیا گیا ۔ اس اللہ نے ان بستیوں اور وہاں کے رہنے والوں کو نشات عبرت بنا دیا۔ بحرمر وار (Dead Sea) جس کا جنوبی علاقہ اس تباہی و بربادی کا منہ بولتا ثبوت آج بھی موجود ہے۔ (2) حضرت لوط کی نافرمان اور مجرم قوم کے بدترین انجام کے بعد حضرت موسیٰ کی اس جدوجہد کا ذکر فرمایا گیا ہے جب انہوں نے فرعون اور اس کی قوم کو ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کی بات سننے کے بجائے ان کو جادو گر اور دیوانہ قرار دے کر ان کی قوتوں کی توہین کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں اس طرح غرق کردیا کہ آج فرعون کے بدن کے سوا کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ وہ فرعون جس کا جسم بھی ہر نافرمان قوم اور اس کے سربراہوں کے لئے نشان عبرت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو بچا لیا جو حضرت موسیٰ کی دعوت پر ایمان لا چکے تھے۔ (3) اللہ تعالیٰ نے قوم عار کا ذکر فرمایا جن کی اصلاح کے لئے حضرت ہود کو بھیجا گیا تھا۔ قوم عاد دنیا کی ترقی یافتہ اور مال دار رقم تھی جس نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کی تھی لیکن جب ان کا کفر و شرک اور ظلم و زیادتی بڑھتی ہی لچی گئی تو ان پر ا لہ کا عذاب آیا اور ان کو اس طرح تیز آندھی سے تباہ و برباد کردیا گیا کہ آج ان کا وجود تک منٹ چکا ہے وہ ایسی خطرناک اور زبردست آندھی تھی کہ جس چیز سے گذرتی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے اور ریزہ ریزہ کردیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو بچا لیا۔ (4) قوم ثمود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان کی اصلاح کے لئے بہت سے انبیاء کرام کو بھیجا گیا مگر یہ قوم اپنی ترقیات اور مال و دولت اور اونچی اونچی بلڈنگوں میں ایسی بدمست ہوچکی تھی کہ انہوں نے اللہ کے پیغمبروں کی بات تک سننے سے انکار کردیا اور آخر کار اللہ کا عذاب ایک ہیبت ناک آواز کی صورت میں ظاہر ہوا اس طرح کہ وہ قوم اپنے گھروں میں اوندھی پڑی رہ گئی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے رہ گئے۔ (5) حضرت نوح جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تک اللہ کے دین کی طرف بلانے کی جدوجہد فرمائی۔ نافرمان قوم کو اپنی سرکشی ظلم و زیادتی اور کفر و شرک سے بچنے کی تلقین کی مگر اس قوم نے ان کی ایک بات نہ مانی۔ آخر کار اللہ نے حضرت نوح کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ ایک مقررہ وقت پر آپ اپنے اہل خانہ ایمان لانے والوں اور جانوروں کے ایک ایک جوڑے کو لے کر اس کشتی میں سوار ہوجائیے۔ چناچہ ایسا زبردست پانی کا طوفان آیا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ لینے والے بھی اس طوفان سے نہ بچ سکے۔ صرف وہی تین سو تیرہ اہل ایمان بچ سکے جو حضرت نوح کی اس کشتی میں سوار تھے۔ ان تمام واقعات کو بیان کرنے کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب خواہ وہ اس زمانہ کے اہل مکہ ہوں یا قیامت تک آنے والے انسان ہوں وہ اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ ال لہ کا یہ دستور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا جب بھی دنیا میں کفر و شرک اور ظلم و زیادتی حد سے بڑھ جائے گی اور نافرمان توبہ نہ کریں گے تو اللہ کا عذاب ان کی طرف متوجہ ہو کر رہے گا اور ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔
Top