Baseerat-e-Quran - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
جو بھی (روئے زمین پر ہے) وہ فنا ہونے والا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 45 فان فنا ہونے والا ۔ وجہ چہرہ، ذات۔ ذوالجلا عزت و عظمت والا۔ یسئل سوال کرتا ہے۔ شان ضروری کام، شان ۔ الثقلن دو بڑی بھاری مخلوق۔ معشر گروہ، جماعت تنفذوا تم نکل بھاگو۔ اقطار کنارے۔ سلطان طاقت و قوت شواظ شعلے نحاس دھواں لاتنصران تم بدلہ نہ لے سکو گے انشقت پھٹ پڑی وردۃ سرخ الدھان رنگا ہوا سرخ چمڑا یعرف پہچان لیا گیا۔ النواصی پیشانیاں یطرفون وہ گھو میں گے۔ حمیم کھولتا وہا۔ ان بہت کھولتا ہوا گرم پانی۔ تشریح : آیت نمبر 26 تا 45 اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر سب سے بڑا کرم اور نعمت یہ ہے کہ اس نے قیامت قائم ہونے سے پہلے ہی انسانوں اور جنات کو اس بات سے پوری طرح آگاہ کردیا ہے کہ اس کے بندوں نے جو بھی نیکی اور بھلائی کی ہے وہ ضائع نہ ہوگی اور جس نے برے اعمال کئے ہوں گے اس کا حساب بھ اس کے پاس موجود ہے جو قیامت کے دن اس کے سامنے رکھ دیا جائے۔ نیک اعمال پر بوہترین اجر وثواب اور برے اعمال پر سخت سزا اور عذاب دیا جائے گا۔ قیامت قائم ہونے اور موت کے فرشتوں کے آنے سے پہلے پہلے جس نے اپنے کفر و شرک اور گناہوں سے توبہ کرلی اور اللہ و رسول کے احکامات کے مطابق حسن عمل پیش کیا اس کو جنت کی ابدی راحتیں عطا کی جائیں گی لیکن اگر کسی نے اپنی روش زندگی کو نہ بدلا اور وہ اپنے کفر و شرک اور گناہوں پر اڑا رہا تو پھر اس کو جنت کی ہوا تک نہ لگے گی۔ فرمایا کہ تم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ اس دنیا میں کسی چیز کو بقا نہیں ہے۔ ہر آن ٹوٹ پھوٹ اور فنا کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک چیز آج موجود ہے جو خوب پھل پھول رہی ہے لیکن کچھ دن کے بعد ہی چیزبوسیدہ اور کمزور ہو کر ختم ہوجاتی ہے پھر کوئی نئی چیز اس کی جگہ لے لیتی ہے فرمایا کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب اس پوری کائنات کو اور اس میں بسنے والی ہر ایک مخلوق کو فنا کردیا جائے گا۔ اللہ کی ذات کے سوا کوئی چیز باقی نہ رہ گی ۔ اللہ کے غضب اور جلال سے آسمان کا رنگ سرخ ہوجائے گا۔ زمین و آسمان، چاند سورج اور ستارے سب کے سب ختم ہوجائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ جس مخلوق کو چاہیں گے دوبارہ زندگی عطا فرمائیں گے۔ وہ میدان حشر قائم ہوگا جس میں اولین و آخری ساری مخلوق کو جمع کیا جائے گا۔ میزان عدل قائم کی جائے اور پھر ہر شخص کو ان اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ ایک طرف کفار و مشرکین اور اللہ کے نافرمان گناہگار لوگ ہوں گے دوسری طرف زندگی بھر نیکی، تقویٰ اور پرہیز گاری سے وقت گذارنے والے ہوں گے۔ کفار و مشرکین جب اس میدان حشر میں اللہ کے عذاب کو دیکھیں گے تو اس سے نظریں چرائیں گے۔ ایک دوسرے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کریں گے لیکن ان سے کہہ دیا جائے گا کہ تم کہیں چھپ نہ سکو گے زمین و آسمان کے کنارے بھی تمہیں پناہ نہ دیں گے۔ جہاں بھی چھپو گے اللہ کے فرشتے تمہیں سر کے بالوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اللہ کے سامنے پیش کردیں گے۔ پھر تمہارے اعمال کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا۔ ان کفار و مجرمین پر عذاب الٰہی کو دیکھ کر ایسی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ طاری ہوگی کہ ان کے چہرے سیاہ پڑجائیں گے۔ بےرونق آنکھیں نیلی ہوجائیں گی۔ پیاس کی شدت سے بوکھلا کر پانی تلاش کریں گے۔ کو کھولتا ہوا پانی ملے گا جسے وہ بےقراری سے پی جائیں گے لیکن اس کھولنے پانی کے پینے سے ان کی آنتیں بھی باہر نکل پڑیں گی۔ (یہ محجرمین اپنے اعمال کے سبب پہچان لئے جائیں گے۔ ان کو پہچاننے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ وہ جھوٹے نے معبود جن کے سہارے کی ان کو امید ہوگی وہ ان سے یہ کہہ کر دامن چھڑا لیں گے کہ الٰہی ! ان لوگوں کو ہم نے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی گمراہی کی طرف بڑی تیزی سے دوڑ دوڑ کر آیا کرتے تھے۔ اگر انہوں نے ہماری بات مال لی ہے تو تو یہ ان کی فطرت کی خرابی تھی اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ اپنے معبودوں کو پکاریں گے مگر ان کو کوئی جواب نہ ملے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کفار و مشرکین کو سر کے بالوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ گھسیٹا جائے گا اور ان کو جہنم کی اس اگٓ میں جھونک دیا جائے گا جس سے کسی حال میں چھٹکا ارا نہ مل سکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ ہے وہ جہنم جس کا تم انکار کیا کرتے تھے۔ اس کے برخلاف جو لوگ نیکی، تقویٰ ، پرہیز گاری اور بھلائی کی زنگدی گذارتے رہے ہوں گے ان کو اس دن انتہائی عزت و احترام کا اعلیٰ مقام عطا کیا جائے گا۔ فرشتے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کریں گے۔ ان کو سلام کریں گے۔ اللہ کی طرف سے سلامتی کی خوش خبریاں دیں گے ان کا حساب کتاب ہونے کے بعد ان کو جنت کی ابدی راحتوں میں داخل کردیا جائے گا۔ ان جنتوں میں ہر طرف خوشی و مسرت، عزت و سربلندی ، سرسبزی و شادابی ہوگی، بہتے ہوئے چشمے، خوبصورت باغات دودھ اور شہد کی نہریں ہوگی، حسین خوبصورت حوریں اور ہر طرح کی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ وہ بھی خواہش کریں گے ان کی دلی خواہش اور تمنا اسی وقت پوری کردی جائے گی۔ ان جنتوں میں کس طرح کی لغو، فضول، باتیں ، دشمنیاں مخالف، بغض و حسد اور کسی طرح کے گناہ کا کوئی کام نہ ہوگا ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ زیر مطالعہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اللہ کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے۔ کیا یہ نعمت نہیں ہے کہ کفار (مشرکین اور ظالم جہنم میں تقویٰ و پرہیز گاری کی زندگی گذارنے والے جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار ہوچکے ہوں گے اگر زمین و آسمان اور چاند سورج ستارے فنا نہ کئے جاتے تو تمہیں جنت کی یہ راحتیں کیسے نصیب ہوتیں اور وہ کفار و مشرکین جنہوں نے پوری زندگی تمہاری مخلافت اور دشمنی میں گذاری ہے ان کو سزا کے لئے ملتی کائنات میں فنا اور بقاسب اللہ کی نعمتیں ہیں جو ان نے اس نے اپنے نیک بندوں کو عطا فرمائی ہیں اور گناہگاروں کو ان کے کیفرکردار تک پہنچانے کا ذریعہ بنائی ہیں۔
Top