Baseerat-e-Quran - Al-Hadid : 11
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚ
مَنْ ذَا الَّذِيْ : کون ہے جو يُقْرِضُ اللّٰهَ : قرض دے گا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ فَيُضٰعِفَهٗ : پھر وہ دوگنا کرے گا اس کو لَهٗ : اس کے لیے وَلَهٗٓ اَجْرٌ : اور اس کے لیے اجر ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
تم میں سے وہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ پھر اللہ اس کو اس شخص کیلئے بڑھاتا چلا جائے۔ اور اس کے لئے ایک قابل احترام بدلہ بھی ہو۔
لغات القرآن : یقرض۔ قرض دیتا ہے۔ یضعف۔ وہ دوگنا کرتا ہے۔ اضافہ کرتا ہے۔ یسعی۔ دوڑتا ہے۔ انظرونا۔ ہمیں دیکھو۔ ہمارا انتظار کرو۔ نقتبس۔ ہم کچھ حصہ لیں۔ ارجعوا۔ تم لوٹ جائو۔ التمسوا۔ تلاش کرو۔ سور۔ دیوار۔ آر۔ تربصتم۔ تم نے انتظار کیا۔ ارتبتھم۔ تم نے شک کیا۔ غرت۔ دھوکے میں ڈال دیا۔ الامانی۔ تمنائیں۔ مولی۔ مالک۔ خادم۔ تشریح : اللہ جو زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک ہے وہ اپنے فرماں بردار بندوں کو ان کی کوششوں، جدوجہد اور محنت سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔ آدم کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے وہی مالک ہے لیکن اس کی شان کریمی کے قربان کہ وہ اس کی رضا و خوشنوی کے لئے خرچ کئے گئے مال کو اپنے اوپر قرض قرار دے رہا ہے۔ فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض دے جسے کئی تنا بڑھا کر اس کو واپس کرد یا جائے اور اس کیلئے ایک ایسا بدلہ بھی دیا جائے جو نہایت قابل احترام ہے۔ قرض حسنہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اللہ کے دین کی سربلندی اور صرف اس کی رضا و خوشنودی کیلئے نہایت خلوص، محبت اور عاجزی کے ساتھ کے بندوں پر خرچ کرنا جس میں لالچ، دکھاوا اور احسان جتانے کا کوئی جذبہ نہ ہو۔ نہ تو اس لئے دیا جائے کہ لوگ اس کو یہ کہیں کہ وہ بڑا سختی ہے بلکہ صرف ایک ہی جذبہ ہو کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔ فرمایا کہ ایسے مخلص مسلمانوں کو اللہ دنیا اور آخرت میں ہر طرح اجرو ثواب اور بہترین انعامات سے نوازے گا۔ آخرت میں اس پل صراط سے گذار کر جنت میں جانے کا حکم دیا جائے گا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا۔ اہل ایمان کو دو نور اور روشنیاں عطا کی جائیں گے۔ ان کے ایمان کا نور ان کے سامنے ہوگا اور ان کے اعمال کا نور ان کے داہنی جانب ہوگا اور ان کے دوسرے اعمال کا نور ہر طرف روشنی پھیلا رہا ہوگا۔ منافقین ان کے نور کی روشنی میں چل پڑیں گے اور اہل ایمان بڑی تیزی سے پل صراط سے گذر رہے ہوں گے۔ منافقین اس سخت اندھیرے میں جو ہر طرف چھایا ہوا ہوگا اس میں بھٹک رہے ہوں گے وہ اہل ایمان سے التجا کریں گے کہ ذرا ٹھہر جائو اور تیزی سے نہی چلو تاکہ وہ بھی ان کی روشنی میں راستہ طے کرتے جائیں۔ اہل ایمان ان منافقین سے کہیں گے وہ اسی طرف جائیں جہاں سے ہم نے یہ نور حاصل کیا ہے۔ جب وہ منافقین پلٹیں گے تو اہل ایمان اور منافقین کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اہل جنت اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجائیں گے اور پھر وہ دروازہ بھی بند کردیا جائے گا۔ منافقین چلا کر کہیں گے کہ تم کیسے بےمروت ہو دنیا میں تو ہم اور تم دونوں ایک ساتھ رہتے اور عبادتیں کرتے تھے آج تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ہماری ذرا مدد نہیں کرتے ؟ اس وقت اہل ایمان جواب دیں گے کہ بیشک ہم دنیا میں ایک ساتھ رہتے تھے لیکن ٭تم نے اپنے آپ کو گمراہی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ٭تم ہمارے ساتھ ہونے کے باوجود ہر وقت اس بات کی تمنا کرتے تھے کہ ہم کسی آفت یا مصیبت میں پڑجائیں۔ ٭دین اسلام کے ہر اصول میں شک و شبہ پیدا کرنا تمہارا شیوہ تھا۔ ٭تم اپنی غلط اور بےبنیاد تمناؤں میں الجھے رہے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور دھوکے باز شیطان نے تمہیں اپنے جال سے نکلنے نہ دیا۔ ان سے کہا جائے کہ اب تم سے اور کافروں سے کوئی معاوضہ لے کر چھوڑا نہ جائے گا۔ تمہارا ٹھکانا صرف وہ جہنم ہے جس کے تم لائق ہو اور تہ تمہارے لئے بدترین ٹھکانا ہے۔
Top