Baseerat-e-Quran - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کی نصیحت اور جو سچا دین نازل ہوا ہے اس کے سامنے ان کے دل جھک جائیں ؟ انہیں ان لوگوں کی طرح نہ ہونا چاہیے جنہیں کتاب دی گئی پھر جب ایک لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے بہت بڑی تعداد فاسقین کی ہے۔
لغات القرآن۔ الم یان۔ کیا وہ وقت نہیں آیا۔ ان تخشع۔ یہ کہ ڈریں۔ جھک جائیں۔ الامد۔ مدت تشریح : جب خشک اور بنجرزمین پر بارش برستی ہے تو اس میں تروتازگی کے آثار اور ایک نئی زندگی کروٹیں لینے لگتی ہے۔ اسی طرح جب شرک کی وجہ سے دلوں کی دنیا ویران، خشک اور تاریک ہوجاتی ہے تو اللہ کے پاکیزہ کلام اور نبوت کی روشنی سے روحانی دنیا روشن ومنور ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور نبوت کو بارش سے تشبیہ دے کر بتا دیا ہے کہ مردہ قوموں میں نئی زندگی اللہ کے پاکیزہ کلام اور نبوت پر مکمل یقین کرلینے اور ماننے کے بعد ہی پیدا ہوا کرتی ہے جس سے ایک نیا عزم و یقین، حوصلہ اور ولولہ بیدار ہوجاتا ہے۔ اللہ کے کلام اور نبوت کی عظمت پر جتنا بھی یقین بڑھتا جائے گا رفتار اتنی ہی تیز ہوتی چلی جائے گی لیکن اگر ایمان و یقین میں ذرا بھی کمی آئے گی تو مقصد میں کوتاہی اور عمل میں سستی اور بےحسی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ نبی کریم ﷺ نے جب اعلان نبوت فرمایا اور اللہ کے کلام کے ذریعہ صحابہ کرام کی تربیت فرمائی تو جاہلی معاشرہ میں رہنے بسنے والے جہالت و تاریکی سے نکل کر علم و عمل کے علم بردار بن گئے اور ساری دنیا کے اندھیرے دور کرنے میں اپنے جان و مال سے اس طرح لگ گئے کہ انہیں اپنی ذات اور بال بچوں سے زیادہ ہر وقت ایک ہی فکر تھی کہ وہ دنیا سے ظلم اور جہالت کو کس طرح مٹائیں چناچہ انہوں نے ہر طرح کے ایثار و قربانی کی بہترین مثالیں قائم کیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب اس طرح کی مخلصانہ تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو وہ لوگ جو نئے نئے اس عزم و حوصلے میں شریک ہوتے ہیں تو ان میں وہ جذبہ اور اسپرٹ نہیں ہوتی جو ان سے پہلے لوگوں میں ہوتی ہے۔ ان آیات میں ایسے ہی مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت اور وہ سچا دین جو ان کی ہدایات کے لئے نازل کیا جا رہا ہے اس کی طرف پوری طرح جھک جائیں۔ عبرت و نصیحت حاصل کرانے کے لئے فرمایا کہ تمہارے سامنے قرآن کریم کے ذریعہ گذری ہوئی قوموں کے واقعات بیان کئے جا رہے ہیں کہیں تم بھی ان گذری ہوئی قوموں کی طرح نہ ہوجانا کہ جب ان پر ایک طویل زمانہ گذر گیا تو وہ ایمان کی کیفیات سے اتنی دور چلے گئے کہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے ان کے دل تکبر اور غرور کی وجہ سے پتھر سے زیادہ سخت ہوگئے اور ان کی بڑی تعداد فسق و فجور اور گناہوں میں مبتلا ہوگئی۔ اگر وہ اللہ کے دین پر قائم رہتے تو جس طرح پانی کے چھینٹے سے زمین میں ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح ان کی زندگی میں بھی بہار آجاتی۔ ہر سمجھ اور عقل رکھنے والے کے لئے اللہ نے ہر بات کو نہایت وضاحت سے کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ایمان والے مردوں اور عورتوں کی تعریف کی ہے جو اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں صدقات اور جب دین کی سربلندی کے لئے قرض حسنہ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آگے بڑھ کر اس کارخیر میں حصہ لیتے ہیں اسی طرح اللہ و رسول کی اطاعت اور اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایسے لوگوں کے اجرو ثواب میں وہ اضافہ ہی کرتا چلا جائے گا اور قیامت میں ان کو عزت کی روزی اور رزق عطا فرمائے گا لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفرو شرک کیا اور اللہ کی آیات کو جھٹلایا ان کا انجام بھیانک جہنم ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔
Top