Baseerat-e-Quran - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
کوئی آفت یا مصیبت جو زمین پر (نازل ہوتی ہے) یا تمہیں پہنچتی ہے وہ سب ہم نے ایک کھلی کتاب میں لکھ رکھی ہے۔ اور ایسا کرنا یہ اللہ کے لئے آسان ہے۔
لغات القرآن۔ سابقوا۔ دوڑو۔ عرض۔ پھیلائو۔ ان نبرا۔ یہ کہ ہم پیدا کریں۔ یسیر۔ آسان۔ لیکیلا۔ تاکہ نہ ہو۔ مختال۔ اترانے والا۔ فخور۔ بہت زیادہ گھمنڈ کرنے والا۔ تشریح : اس زمین پر یا کسی انسان پر جو بھی راحت و آرام اور مصیبت و عذاب آتا ہے وہ تقدیر الٰہی اور اللہ کے لکھے ہوئے فیصلے کے مطابق ہی آتا ہے۔ زمین مصیبت سے مراد مال و دولت کا ضائع ہوجانا، تجارت اور لین دین میں گھاٹا اور نقصان ہوجانا، زلزلہ ، قحط اور کھیت کی تباہی وغیرہ زمینی مصیبت ہے اور کوئی اتفاقی حادثہ، زخم، چوٹ، بیماری بےآرامی، باہمی اختلافات، فتح اور شکست وغیرہ یہ انسانی نقصانات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ سب کا سب لوح محفوظ میں آدمی کے پیدا ہونے سے پہلے لکھ دیا گیا تھا۔ اب اس کی طرف اس لئے متوجہ کیا جا رہا ہے کہ دنیا میں کسی چیز کا ملنا یا چھن جانا دونوں ہی امتحان ہیں۔ آدمی کی تقدیر کے فیصلے پر صبرو شکر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی چیز ضائع ہوجائے چھن جائے، تہس نہس ہوجائے تو اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر اس کو ہر طرح کی راحتوں اور آرام کے اسباب اور مال و دولت مل جائے تو اس کا اترانا نہیں چاہیے۔ اللہ کو نہ تو یہ بات پسند ہے کہ مومن ہوتے ہوئے کوئی اللہ کی رحمت اور کرم سے مایوس ہو کر ہاتھ پیر ڈال دے اور نہ فخر و غرور پسند ہے کہ وہ ذرا سے مال و دولت پر اس طرح اترانے لگے کہ اسے اپنے علاوہ ہر شخص حقیر و ذلیل نظر آنے لگے۔ جس وقت یہ آیات نازل ہوئین اس وقت مکہ مکرمہ میں اہل ایمان کے لئے شدید ترین حالات تھے۔ ہر طرف مصیبتیں گھر گھر کر آرہی تھیں اور کسی طرف سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ ان حالات میں گبھرا جانا اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھنا ایک فطری بات ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں جو چیز ہاتھ نہ لگے اس پر رنجیدہ نہ ہوا کرو اور جب مل جائے تو اس کو اپنی ذاتی کوشش اور جدوجہد کا نتیجہ سمجھ کر اترایا نہ کرو کیونکہ اللہ کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں جو فخرو غرور کرتے اور اتراتے ہیں۔ فرمایا کہ اسی طرح وہ لوگ جو بخل اور کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ سکھاتے ہیں کہ یہاں نیک باتوں میں کیا رکھا ہے کسی کارخیر میں ہم اپنا مال و دولت کیوں خرچ کریں۔ ہماری محنت کی کمائی ہے جس پر ہمارے بچوں کا حق ہے ہم کسی کو کیوں دیں وغیرہ وغیرہ ۔ فرمایا کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا دیا ہوا مال ہے اگر تم اس کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اللہ کے بندوں پر خرچ کروں گے، مجبوری اور بےکسی میں کسی کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرو گے تو اللہ اس سے کہیں زیادہ تمہیں عطا کردے گا جو تم نے اللہ کے بندوں پر خرچ کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ یہ بات لوگوں کو سکھائیے لیکن اگر وہ اس کو ماننے سے انکار کردیں اور اس سچائی سے منہ پھیر لیں تو ان کو بتا دیجئے کہ اللہ کو تمہارے مال و دولت کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ ان تمام چیزوں سے بےنیاز ہے اگر ساری دنیا مل کر بھی اس کی تعریف نہ کرے تب بھی وہی ذات تمام خوبیوں کی مالک ہے۔
Top