Baseerat-e-Quran - Al-Hashr : 11
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِیْعُ فِیْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا١ۙ وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
اَلَمْ : کیا نہیں تَرَ : آپ نے دیکھا اِلَى : طرف، کو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے نَافَقُوْا : نفاق کیا، منافق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لِاِخْوَانِهِمُ : اپنے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا، کافر مِنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَئِنْ : البتہ اگر اُخْرِجْتُمْ : تم نکالے گئے لَنَخْرُجَنَّ : تو ہم ضرور نکل جائیں گے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ وَلَا نُطِيْعُ : اور نہ مانیں گے فِيْكُمْ : تمہارے بارے میں اَحَدًا : کسی کا اَبَدًا ۙ : کبھی وَّاِنْ : اور اگر قُوْتِلْتُمْ : تم سے لڑائی ہوئی لَنَنْصُرَنَّكُمْ ۭ : توہم ضرور تمہاری مدد کریں گے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے اِنَّهُمْ : بیشک یہ لَكٰذِبُوْنَ : البتہ جھوٹے ہیں
اور (اے نبی ﷺ آپ نے ان (منافقین) کو دیکھا جو اپنے اہل کتاب بھائیوں (بنو نضیر) سے یہ کہتے ہیں کہ اگر تم نکالے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی نکلیں گے اور ہم تمہارے معاملہ میں کسی کی بات نہ سنیں گے۔ اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ (منافق) جھوٹے ہیں۔
لغات القرآن۔ نافقوا۔ انہوں نے دھوکہ دیا۔ یشھد۔ گواہی دیتا ہے۔ رھبۃ۔ ڈر۔ خوف۔ لا یفقھون۔ وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ قری (قریۃ) ۔ بستیاں۔ محصنۃ ۔ قلعہ بند۔ جدر (جدار) ۔ دیواریں۔ باس۔ سختی۔ جنگ۔ تحسب۔ تو گمان کرتا ہے۔ شتی۔ الگ الگ۔ تشریح : سورة حشر کی ابتدائی پانچ آیتوں میں اس بات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کو مسلسل معاہدہ کی خلاف ورزیوں، سازشوں اور رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کی کوششوں کے بعد مدینہ سے نکلنے کے لئے دس دن کا نوٹس دیا گیا تو رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی نے بنو نضر سے کہا کہ وہ اس نوٹس کی پرواہ نہ کریں، ڈٹ جائیں، میرے پاس دو ہزار رضا کار میرے اشارے کے متنظر ہیں جو تمہاری طرف سے لڑیں گے اور پھر تمہارے بہت سے حلیف قبائل بھی تو ہیں جو تمہارا ساتھ دیں گے۔ بنو نضیر عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کے بہکائے میں آکر غرور وتکبر کا پیکر بن گئے اور رسول اللہ ﷺ سے کہلا دیا کہ ہم تو یہاں سے جانے والے ہیں نہیں آپ سے جو ہو سکے وہ کرلیں۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے ” اللہ اکبر “ فرمایا اور صحابہ کرام ؓ سے بنو نضیر کا گھیرائو کرنے اور جنگ کا اعلان کردیا۔ دس دن کی مدت گزرتے ہی آپ ﷺ نے تقریبا تین ہزار صحابہ کو لے کر اس قدری تیزی سے بنو نضیر کے قلعوں کو گھیر لیا کہ وہ قلعوں میں بند ہو کر اہل ایمان پر صرف تیز ار پتھر برساتے رہے۔ آپ ﷺ نے گھیرا تنگ کردیا اور کوئی خاص جنگی کاروائی نہیں کی۔ عبد اللہ ابن ابی اور بنو نضیر کا کوئی حلیف ان کی مدد کرنے کے لئے نہیں آیا۔ طویل محاصرہ اور کسی طرف سے کسی طرح کی امداد نہ آنے پر آخر کا بنو نضیر نے صلح کی پیش کش کردی جسے آپ ﷺ نے منظور کرتے ہوئے ان کو ایک ایک اونٹ پر جو کچھ گھر بار کا سامان آسکتا تھا وہ لے جانے کی اجازت دیدی۔ اس طرح چند ہی دنوں میں بغیر کسی جنگ کے بنو نضیر کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے زیر مطالعہ آیات کو نازل فرمایا۔ ارشاد ہے کہ اے نبی ﷺ آپ نے ان منافقین کو دیکھا جنہوں نے کافر اہل کتاب سے کہا کہ اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور ہم تمہارے مقابلے میں کسی کی بات نہ سنیں گے۔ جنگ ہونے کی صورت میں ہم تمہارے ساتھ ہوں گے۔ فرمایا کہ اللہ گواہ ہے یہ قطعاً جھوٹے لوگے ہیں گر یہ (بنو نضیر) نکالے گئے تو یہ ہرگز ان کے ساتھ نہ نکلیں گے۔ جن گ میں ان کی کوئی مدد نہ کرسکیں گے نیز کسی اور طرف سے بھی ان کی مد دنہ کی جائے گی اور اگر جنگ ہوئی اور انہوں نے بھی مدد کرنے کی کوشش کی تو یہ سب پیٹھ دکھا کر بھاگیں گے۔ فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نادان و احمق لوگ اللہ سے تو نہیں ڈرتے لیکن تمہارا رعب ان کے دلوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ فرمایا کہ یہ سب منافق ہیں جو کبھی سامنے آکر مقابلہ نہ کریں گے یا تو یہ قلعہ بند ہو کر یا دیواروں کے پیچھے سے تم پر حملے کریں گے۔ فرمایا کہ شاید تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ سب متحدو متفق ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ان کے دل تو خود ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں اور آپس کی مخالفت میں بڑے سخت لوگ ہیں۔ یہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو ان سے کچھ ہی مدت پہلے اپنے کئے کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ ان کا انجام بھی درد ناک ہی ہے۔ اکسانے والے کی مثال تو اس شیاطن جیسی ہے جو آدمی کو کفر پر آمادہ کرتا ہے اور جب آدمی کفر کرنے لگتا ہے تو شیطان پیٹھ دکھا کر بھاگتا ہے اور کہتا ہے کہ اصل میں مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے تم سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر ان (جیسے شیطانوں اور انسانوں ) کا انجام ایک ایسی جہنم ہے جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔
Top