بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Hashr : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
آسمانوں اور زمین میں جو بھی (مخلوق ) ہے وہ سب اسی کی پاکیزگی بیان کرتی ہے۔ وہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔
لغات القرآن۔ اول الحشر۔ پہلا مقابلہ۔ مانعت۔ بچانے والی۔ حصون (حصن) ۔ قلعے۔ قذف۔ پھینکا۔ ڈالا۔ یخربون۔ وہ برباد کرتے ہیں۔ الجلائ۔ (وطن سے) نکلنا۔ شاقوا۔ انہوں نے نافرمانی کی۔ ماقطعتم۔ تم نے نہیں کاٹا۔ لینۃ۔ کھجور ( مدینہ منورہ کی مشہور کھجور) ۔ اصول۔ بنیاد۔ جڑ۔ تشریح : مکہ مکرمہ سے جب آپ نے یثرب (مدینہ منورہ) کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ نے مدینہ کے آس پاس رہنے والے یہودیوں اور مختلف قبیلوں سے برابری کی بنیاد پر ایک ایسا معاہدہ کیا جس سے سب اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مذہب پر پوری آزادی سے عمل کریں اور اگر مدینہ منورہ پر کسی طرف سے بھی حملہ ہو تو سب مل کر اس کا دفاع اور ایک دوسرے کی خیر خوہای کریں گے۔ اس وقت خاص طور پر بنو نضیر، بنو قریظہ، بنو قینقاع یہودیوں کے بڑے قبیلے تھے ان کی باہمی دشمنی کے باوجود اس معاہدے کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی۔ مکہ کے قریش شروع ہی سے اس ” میثاق مدینہ “ کے شریک قبائل کو نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کرتے رہتے تھے لیکن ان کو ہر طرح کی ناکامی ہوئی اور تمام قبائل اس معاہدے کی پابندی کرتے رہے۔ غزوہ بدر میں کفار مکہ کی زبردست شکست سے مدینہ کے قبائل چونک اٹھے۔ غزوہ احد میں بعض مسلمانوں کی اجتہادی غلطی کی وجہ سے وقتی شکست ہوئی جو بعد میں فتح سے بدل گئی لیکن اس کے منفی اثرات پورے علاقے پر مرتب ہوئے جس کے نتیجہ میں بعض قبیلوں نے کفار مکہ کے اشارے پر کچھ غداری کرنے کی کوشش کی لیکن نبی کریم ﷺ نے بروقت اقدام کرکے بنو قریظہ اور بنو قینقاع کو سخت سزا دی اور مدینہ سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ بنو نضیر جو صدیوں سے مدینہ میں رہتے آئے تھے اور انہیں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد ہونے پر بڑا فخر تھا ان کے مضبوط قلعے اور گڑھیاں تھیں، سرسبز و شاداب باغات تھے اور جماعتی لحاظ سے بھی وہ ایک منظم گروہ تھے۔ غزوہ احد تک وہ خاموش رہے لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے خاموشی سے اقدامات کرنا شروع کردئیے کیونکہ وہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور قوت سے سخت پریشان تھے۔ بنو نضیر کے سردار کعب ابن اشرف غزوہ احد کے بعد چالیس اہم ترین لوگوں کو لے کر قریش مکہ کے پاس پہنچا اور ایک خفیہ معاہدہ کیا اور آخر میں چالیس یہودیوں اور قریش مکہ کے چالیس ذمہ دار لوگوں نے بیت اللہ میں اس کے پردوں سے لپٹ کر دعائیں کیں اور یہ معاہدہ کیا کہ وہ ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ جیسے ہی ان لوگوں نے معاہدہ کیا حضرت جبرئیل نے آکر نبی کریم ﷺ کو ان کے معاہدے سے مطلع کردیا۔ مدینہ کے یہودیوں کی یہ پہلی اور سب سے بڑی عہد شکنی تھی۔ دوسری طرف ایک ہی مہینے میں دو زبردست حادثے پیش آگئے رجیع اور بیر معونہ۔ ان دو واقعات نے اہل ایمان کو ہلا کر رکھ دیا اور یہودیوں کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے اور انہوں نے طرح طرح سے میثاق مدینہ کی دھجیاں بکھیرنا شروع کردیں۔ صفر 4 ھ میں عضل اور قارہ کے لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے ظاہری طور پر ایمان قبول کرنے کا ڈھونگ رچایا اور آپ سے درخواست کی کہ ان کے قبیلے کے لوگوں کو قرآن پڑھانے کے لئے کچھ حضرات کو بھیج دیجئے۔ آپو نے چھ ایسے صحابہ کرام ؓ کو بھیجا جو سب کے سب حافظ قرآن تھے لیکن ان کو راستے ہی میں دھوکے سے شہید کردیا گیا۔ ایسا ہی دوسرا واقعہ بیر معونہ کا پیش آیا جس میں آپ ﷺ نے ابو براء عامر ابن مالک کی درخواست پر ستر صحابہ کی جماعت قرآبن کریم پڑھانے کے سلسلہ میں بھیج دی جو دین کے عالم ، قاری اور ممتاز صحابہ تھے۔ یہ وہ مجاہدین تھے جو دن بھر لکڑیاں کاٹ کر لاتے، ان کو فروخت کرکے اہل صفہ کے لئے غلہ خریدتے، لوگوں کو قرآن کریم پڑھاتے اور رات بھر اللہ کی عبادت و بندگی کرتے تھے۔ یہ صحابہ کی جماعت جب معونہ کے کنویں کے قریب پہنچی تو ان پر زبردست حملہ کرکے سب کو شہید کردیا گیا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اتنے بڑے حادثے کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ رنج و غم سے نڈھال ہوگئے اور آپ ﷺ نے ظالموں کے لئے بددعا فرمائی۔ غزوہ احد کی ظاہری شکست اور ان دو مسلسل واقعات کی وجہ سے بنو نضیر کی شرارتیں عروج پر پہنچ گئیں یہاں تک کہ ایک موقع پر یہودیوں نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے جلیل القدر صحابہ کرام ؓ کو شہید کرنے کی سازش کی جس کی بروقت اطلاع حضرت جبرائیل نے دی۔ بنو نظیر کی ان مسلسل سازشوں اور عہد شکنیوں نے اہل ایمان کو اس بات پر آمادہ کردیا کہ اب بنو نضیر کو ان کے علاقوں سے نکال دیا جائے تاکہ پورا علاقہ امن وامان کے ساتھ رہ سکے اور کفار مکہ کی مدینہ پر مزید جارحیت کے امکانات ختم ہوجائیں چناچہ آپ نے بنو نضیر کو کہلا دیا کہ وہ دس دن کے اندر اپنا جو سامان اپنے ساتھ لے کر جاسکتے ہوں وہ لے کر کہیں دور چلے جائیں ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ اگرچہ انہیں اپنی جماعت کی طاقت، قلعوں اور شہروں کی مضبوطی پر بڑا ناز تھا لیکن وہ مسلمانوں سے مرعوب تھے اس نوٹس کے بعد وہ جانے کے لئے تیار بھی ہوگئے لیکن رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی نے کہلا بھیجا کہ تم نہ گھبرائو، مقابلہ کے لئے ڈٹ جائو میرے پاس دو ہزار ایسے رضا کار موجود ہیں جو تمہاری مدد کریں گے اور جو تمہارے دوسرے حلیف قبائل ہیں وہ بھی تمہاری بھرپور مدد کریں گے۔ بنو نضیر جو صدیوں سے اس علاقے میں آباد تھے جب منافقین اور کفار کی طرف سے مدد کا یقین دلایا گیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہلا دیا کہ ہم تو کہیں جانے والے نہیں ہیں تم سے جو ہو سکے وہ کرلو۔ جب نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کے اس جواب کو سنا تو آپ نے صرف اتنا فرمایا ” اللہ اکبر “ اور آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو جنگ کی تیاری کرنے کا حکم دیدیا۔ جب دس دن کی مدت گزر گئی تو تین ہزار صحابہ کرام ؓ نے بنو نضیر کے تمام قلعوں اور گڑھیوں کو گھیر لیا۔ بنو نضیر قلعہ بند ہوگئے۔ انہوں نے اپنے قلعوں سے پتھر اور تیر برسانا شروع کردئیے اور جن منافقین اور کفار نے مدد کا یقین دلایا تھا وہ سب خاموش تماشائی بن کر رہ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک جنگ حکمت عملی یہ اختیار کی کہ یہودیوں کے جو بہترین باغ تھے ان کے بعض درختوں کو کاٹنا شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ جب یہودی یہ دیکھیں گے کہ ان کی محنت برباد ہو رہی ہے تو اپنے قلعوں سے باہر آجائیں گے اور پھر ان کو گھیر کر مارنا آسان ہوجائے گا۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ اگر میدان میں مقابلہ ہوگا تو یہ درخت بنو نضیر کے بچنے کی جگہ بن جائیں گے اور مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچ سکتا تھا۔ آپ ﷺ نے یہ ساری تدبیریں کیں مگر بنو نضیر کو مقابلے کی جرات نہ ہوئی۔ دس پندرہ راتوں کے محاصرے نے یہودیوں کو اس قدر مرعوب کردیا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور بغیر کسی جنگ کے آپ کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہوگئے۔ بنو نضیر نے کہا کہ ہم جانے کے لئے تیار ہیں ہماری جانیں بخش دی جائیں اور ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم ہتھیاروں کے سوا جو کچھ یہاں سے ساتھ میں لے جاسکتے ہیں وہ لے جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص ایک اونٹ پر جتنا سامان لے جاسکتا ہے وہ لے کر چلا جائے۔ چلتے ہوئے انہوں نے دروازے، کھڑکیاں، کھونٹیاں اور چھتوں کی شیٹیں تک اکھاڑ کر اونٹوں پر لادنا شروع کردیں اور اس طرح بنو نضیر کے تمام لوگوں کو مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا ۔ بنو نضیر مدینہ سے نکل کر خیبر اور شام کے علاقوں میں آباد ہوگئے۔ واقعات کے اس پس منظر میں سورة الحشر کی آیات کو سمجھنے میں سہولت رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین و آسمان یعنی کائنات میں جتنی بھی مخلوق ہے ان میں سے ہر ایک اس زبردست حکمت والے اللہ کی حمدو ثنا کر رہی ہے۔ اس کائنات میں ساری طاقت وقوت اسی ایک اللہ کی ہے اس کے مقابلے میں کسی کی کوئی طاقت اور ہیبت و جلال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کا نام لئے بغیر فرمایا ہے کہ اسی اللہ نے ان اہل کتاب میں سے لوگوں کو پہلی مرتبہ اکٹھا کرکے نکال دیا۔ تمہیں یا عرب میں کسی کو اس بات کا گمان اور اندازہ تک نہ تھا بلکہ خود ان کے ذہن کے کسے گوشے میں اس کا تصور تک نہ تھا کہ وہ اپنے مضبوط قلعوں کے باوجود اس قدر آسانی سے نکلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ بات یہ ہے کہ اللہ نے ان اہل کتاب کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا تھا کہ وہ بڑی محنت سے بنائے گئے اپنے گھروں اور آبادیوں کو اپنے ہاتھوں سے توڑ پھوڑ کر برباد کرنے پر مجبور تھے۔ اس میں ہر ایک کے لئے عبرت و نصیحت کا سامان موجود ہے۔ فرمایا کہ اگر گھر سے بےگھر ہونا ان کے مقدر میں نہ لکھ دیا ہوتا تب بھی ان کو دنیا میں ذلت و رسوائی کی سزا اور آخرت میں ان کو جہنم میں جھونک دیا جاتا ( اور آخرت میں اب بھی ایسا ہی ہوگا) ۔ اللہ نے ان کو یہ عبرتناک سزا س لئے دی ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانیاں کی تھیں اور ہر شخص کو یہ بات رکھنی چاہیے کہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ اس کو اسی طرح سزا دیا کرتا ہے۔ اہل ایمان نے بنو نضیر کی جن ہرے بھرے درختوں کو کاٹا تھا اور بنو نضیر نے کہا تھا کہ ان درختوں کا کیا قصو رہے ؟ یہ تو فساد فی الارض ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ جن درختوں کو کاٹا گیا یا جن کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا گیا وہ سب اللہ کے حکم اور اجازت سے تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ فاسقین کو ذلیل و رسوا کردے اور وہ ذلیل و رسوا ہو کر رہے۔ چونکہ بنو نضیر کے سارے باغات، قلعے اور مکانات اور جائیداد بغیر جنگ کے حاصل ہوئے تھے اس لئے اس کے احکامات کو آئندہ آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ بنو نضیر سے یہ غزوہ بدر کے بعد ربیع الاول 4 ھ مطابق اگست 625؁ء میں پیش آیا۔
Top