Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Baseerat-e-Quran - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ
: اور جو دلوایا اللہ نے
عَلٰي رَسُوْلِهٖ
: اپنے رسولوں کو
مِنْهُمْ
: ان سے
فَمَآ
: تو نہ
اَوْجَفْتُمْ
: تم نے دوڑائے تھے
عَلَيْهِ
: ان پر
مِنْ خَيْلٍ
: گھوڑے
وَّلَا رِكَابٍ
: اور نہ اونٹ
وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ
: اور لیکن (بلکہ) اللہ
يُسَلِّطُ
: مسلط فرماتا ہے
رُسُلَهٗ
: اپنے رسولوں کو
عَلٰي
: پر
مَنْ يَّشَآءُ ۭ
: جس پر وہ چاہتا ہے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے پر
قَدِيْرٌ
: قدرت رکھتا ہے
اور جو مال غنیمت اللہ نے اپنے رسول کو ان (بنو نضیر) سے دلوایا تھا اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اس پر تم نے نہ تو گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
لغات القرآن۔ افائ۔ اس نے لوٹایا۔ اوجفتم۔ تم نے بھگایا۔ تم نے دوڑایا۔ دولۃ۔ مال و دولت۔ نھی۔ منع کردیا۔ تبوئ۔ انہوں نے ٹھکانا بنایا۔ حاجۃ۔ ضرورت۔ یوثرون۔ وہ ترجیح دیتے ہیں۔ خصاصۃ۔ ضروریات زندگی۔ فقر وغربت۔ شح۔ کنجوسی۔ لالچ۔ غلا۔ کینہ۔ بغض۔ تشریح : جنگ میں فتھ کے بعد کفار سے جو مال مجاہدین کے ہاتھ لگتا ہے اگر باقاعدہ جنگ کے ذریعہ حاصل ہو تو اس کو ” مال غنیمت “ اور ” انفال “ کہا جاتا ہے اور بغیر جنگ کے صلح کے ذریعہ مال و دولت ، زمین و جائیداد ہاتھ آتی ہے اس کو ” مال فے “ کہا جاتا ہے۔ مال غنیمت اور مال فے کو کس طرح صرف کیا جائے گا اس کے الگ الگ احکامات ہیں۔ دور جہالت میں عربوں کا دستور یہ تھا کہ جنگ میں جو بھی مال و دولت اور غلام باندیاں ہاتھ لگتی تھیں وہ اس کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں جس نے ان کو اپنے دشمن سے چھینا ہے۔ دین اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں ہر شخص کو اصولوں پر چلنا سکھایا ہے تاکہ ہر شخص کو عدل و انصاف مل سکے اور کسی پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہو۔ اسلام کے ان انقلابی اصولوں نے ہر مومن کو ایک دوسرے سے ہمدردی اور محبت کرنے والا بنادیا۔ سب سے پہلے تو اہل ایمان کو بتایا گیا کہ اصل چیز اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی جان و مال کا ایثار اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ دشمن سے جو مال ملتا ہے وہ ” انفال “ ہے یعنی زائد چیز ہے اس کو اصل نہ سمجھا جائے کیونکہ جب آدمی مال و دولت کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے تو آدمی کی اندرونی کمزوریاں اس کو لالچی، کنجوس، ظالم اور غرور وتکبر کا پیکر بنا دیتی ہیں اس لئے اہل ایمان کے نزدیک اللہ کی راہ میں جان و مال کا نذرانہ پیش کرنا ہی ان کی ساری دولت ہوا کرتی ہے۔ جنگ سے ہاتھ لگنے والے مال کا اصول یہ مقرر فرما دیا گیا ہے کہ جو بھی مال غنیمت ہاتھ لگے اس رسول اللہ ﷺ کے پاس لا کر ڈھیر کردیا جائے چناچہ اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ایک حصہ (خمس) بیت المال میں جمع کرا دیا جاتا جس کی تقسیم کی پوری ذمہ داری اور اختیار رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہوتا تھا تاکہ وہ لوگ جو اس جنگ میں شریک نہیں ہیں یا غریب اور ضرورت مند ہیں وہ بھی محروم نہ رہیں اور باقی مالمجاہدین میں تقسیم کردیا جاتا تھا جو غلام اور باندیاں ہاتھ لگتیں ان کو بھی مجاہدین پر تقسیم کردیا جاتا تھا۔ غزوہ ٔ بنو نضیر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک اور اصول یہ مقرر فرمادیا کہ دشمن سے جو مال و جائیداد بغیر جنگ کے ہاتھ لگے وہ ” مال فے “ ہے جو سب کا سب رسول اللہ ﷺ کے اختیار سے تقسیم ہوگا۔ آپ اس مال و جائیداد کو اپنی مرضی سے عام لوگوں کی مصلحت اور مدد میں خرچ کریں گے۔ چناچہ جب بنو نضیر کے قلعوں اور گڑھیوں کو مجاہدین نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور بنو نضیر کو اندازہ ہوگیا کہ کوئی دوسرا ان کی مدد کے لئے نہیں آئے گا تو وہ صلح پر آمادہ ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ بنو نضیر کے جتنے لوگ ہے وہ ایک ایک اونٹ پر جو کچھ لاد کرلے جاسکتے ہیں لے جائیں۔ یہودیوں نے جو ان سے ممکن ہوسکا انہوں نے ہر چیز کو اپنے اونٹوں پر لادا اور اپنے قلعے، گڑھیاں، گھر بار اور مال و جائیداد مسلمانوں کے حوالے کرکے خیبر اور ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ سب کچھ اس قدر آسانی سے ہوگیا کہ جس کی کسی کو توقع تک نہ تھی۔ اس وقت فے کے احکامات نازل ہوئے جن پر انصار اور مہاجرین نے دل کی خوشی سے عمل کیا اور ایسے زبردست ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا جو رہتی دنیا تک انسانی تاریخ کا سنہری باب سمجھا اور لکھا جائے گا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اے مومنو ! اللہ نے جو مال اپنے رسول کو ان بستی والوں (بنو نضیر) سے دلوایا ہے اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ تم نے اس پر نہ تو گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ (یعنی تم نے کوئی خاص جنگی کاروائی نہیں کی) بلکہ اللہ نے اپنے رسول کو جن پر چاہا مسلط کردیا۔ وہ اللہ ہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے لہٰذا جو مال اللہ نے اپنے رسول کو ” فے “ کے طور پر دلوائے ہیں ان میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ساتھ اس کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ وہ مال (جو معاشرہ کو زندگی دینے کے لئے گھومتے رہنا چاہیے) چند ہاتھوں تک محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک بنیادی اصول زندگی کے ہر معاملے میں متعین فرما دیا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں جو کچھ دیدیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع فرما دیں اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ جب وہ کسی کو سزا دینے پر آتا ہے تو سخت اور بھیانک سزا دیا کرتا ہے۔ اللہ نے اس ” مال فے “ میں مہاجر فقراء کی بھرپور مدد کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مال فے میں ان مہاجر فقراء کا بھی حق ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے ہیں جن کی یہ حالت ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے فضل و کرم اور اس کی مکمل رضا و خوشنودی کے طلب گار رہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرکے اپنے ایمان کی سچائی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کے ایثار و قربانی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مال فے کے وہ بھی حق دار ہیں جو ان مہاجرین کے آنے سے پہلے (مدینہ منورہ میں) اپنا ٹھکانا رکھتے تھے۔ جنہوں نے اپنے پر خلوص ایثار و قربانی کے ذریعہ ایک ایسا عظیم مقام حاصل کرلیا ہے کہ وہ ان مہاجرین سے اپنے دلوں میں کوئی خلش اور تنگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنے فقر و فاقہ کے باوجود اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کرنے کو اپنا سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ واقعہ جو لوگ ” شح نفس “ (کنجوسی، بخل، تنگ دلی اور تنگ نظری سے ) بچ گئے حقیقی فلاح اور کامیابی ان ہی کا مقدر ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ بھی مال فے کے مستحق ہیں جو مہاجرین و انصار بعد میں آئیں گے۔ جن کی زبان پی یہی مخلصانہ دعائیہ کلمات ہوتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دیجئے جو ایمان لانے میں ہم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ الٰہی ! ہمارے دلو میں اہل ایمان کے لئے کسی بھی بغض و عداوت کو جگہ نہ دیجئے گا۔ اے ہمارے پروردگار آپ ہی تو ہر طرح کی شفقتیں کرنے والے مہربان ہیں۔ ٭” مال فے “ کے اس عادلانہ نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والے وہ مہاجرین جو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنا سرا گھر بار، رشتہ دار اور کاروبار جائیداد کو چھوڑ کر مدینہ منورہ آگئے تھے۔ انصار مدینہ نے ان کا نہ صرف زبردست، پر خلوص اور گرم جوشی سے اسقبال کیا تھا بلکہ اپنے کاروبار، مال و دولت، کھیتی باڑی میں اپنا حصہ دار بنا لیا تھا۔ انصار نے ان کو اپنے گھروں اور بستیوں میں مہمانوں کی طرح نہیں بلکہ بھائیوں کی طرح آباد کیا۔ انصار کے خلوص کی انتہا یہ تھی کہ کئی کئی انصاری صحابی کسی ایک مہاجر کو اپنے ساتھ رکھنے پر اصرار کرتے تو دوسرا اس سے زیادہ اصرار کرتا تھا یہاں تک کہ بعض مرتبہ قرعہ اندازی سے یہ طے کیا جاتا کہ کون سا مہاجر کس انصاری کے ساتھ رہے گا۔ مہاجرین نے بھی محنت اور مزدوری سے اپنے انصاری بھائیوں کے دلوں میں اور بھی جگہ بنا لی تھی لیکن ان کا حال یہ تھا کہ ان کے پاس نہ تو اپنا ذاتی مکان تھا، نہ جائیداد تھی وہ اپنے انصاری بھائیوں کی جائیداد اور کاروبار میں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ جب بنو نضیر کے مال اور جائیداد کی تقسیم کے لئے ” مال فے “ کے احکامات نازل ہوئے تو آپ نے انصار کے سرداروں اور انصار مدینہ کو مشورہ کے لئے طلب فرمایا۔ آپ ﷺ نے سب انصار مدینہ سے فرمایا کہ بنو نضیر کے مال و جائیداد ہمیں حاصل ہوچکے ہیں اب ان مالوں کو مہاجرین اور انصار میں تقسیم کردیا جائے اور مہاجرین کو اسی طرح آپ کے مکانوں اور جائیدادوں میں محنت مزدوری کے لئے چھوڑد یا جائے ؟ اس سلسلے میں آپ کا کیا مشورہ ہے ؟ یہ سن کر انصار کے دوسردار حضرت سعد ابن عبادہ ؓ اور حضرت سعد ابن معاذ ؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک ہی بات فرمائی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہماری تو یہ رائے ہے کہ یہ سارے مال و جائیداد ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کردیے جائیں اور وہ پھر بھی ہمارے گھروں میں بدستور رہیں۔ ان سرداروں کی باتیں سن کر تمام انصار کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بیک آواز کہا کہ ہم اس فیصلے پر راضی اور خوش ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے انصار مدینہ کے اس عظیم جذبے کو سنا تو بےساختہ ان انصار مدینہ کے لئے بہت سی دعائیں فرمائیں۔ اس فیصلے کے بعد آپ نے صرف دو انصاری صحابہ ؓ حضرت ابو دجانہ ؓ اور حضرت سہل بن حنیف کو اور ایک روایت کے مطابق حضرت حارث ابن الصمہ کو ان کی بےانتہا غربت کی وجہ سے حصہ دیا (ابن ہشام) اور باقی تمام مال کا بڑا حصہ مہاجرین میں تقسیم فرما دیا گیا۔ سورۃ الحشر کی ان آیات ہی میں چند بہت ہی بنیادی باتیں ارشاد فرمادی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے : (1) دین اسلام نے معیشت کے ایسے منصفانہ اصول مقرر فرمائے ہیں جن میں دولت کی تقسیم میں عدل و انصاف کو بنیاد بنایا گیا ہے تاکہ معاشرے کے چند مال داروں اور دولت مندوں میں ساری دولت گھومتی نہ رہے جس سے غریب اور امیر کے دو ایسے طبقے پیدا ہوجائیں جس میں غریب تو اپنی محنت مزدوری کے باوجود اپنے لیے اور اپنے بال بچوں کے لئے راحت کے ہر سامان سے محروم ہر کو روٹی کے دو ٹکڑوں کے لئے ترس جائے اور اس پر زندگی ایک ایسا بوجھ بن جائے جس میں اسے سانس لینا دشوار ہوجائے لیکن دوسری طرف کچھ مال دار معاشرہ کے اس طرح ٹھیکیدار اور اجارہ دار بن جائیں کہ ریاست، سیاست، صحافت، معاشرت، معیشت، تہذیب و تمدن اور مال و دولت کے تمام ذرائع ان کے غلام بن کر رہ جائیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ان کی اجارہ داری سے خالی نہ رہے۔ امیر ہر روز امیر تر بنتا چلا جائے اور غریب ہر روز غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے۔ چونکہ دین اسلام کے اصولوں میں جبر اور زبردستی نہیں ہے اس لئے اس نے ایسے طریقے متعین کردئیے ہیں کہ دولت مندوں کی دولت کا بہائو غریبوں کی طرف اور شہر میں رہنے والے صاحب حیثیت لوگوں کی دولت دیہاتوں کی طرف بہنے لگے چناچہ زکوٰۃ و صدقات کو عبادت کا درجہ دیا گیا اور نفلی صدقات کی جگہ جگہ رغبت دلائی گئی۔ قرض داروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کو سہولتیں دینے کا حکم دیا گیا۔ سود کے لین دین کو قطعی حرام قرار دیا گیا ۔ ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کی گئی۔ مختلف غلطیوں کی معافی کے لئے کفارہ لازم کیا گیا۔ میراث کی تقسیم اور وصیت کے احکامات دئیے گئے تاکہ مرنے والے کا مال اور اس کی دولت و جائیداد زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے۔ بخل، کنجوسی، تنگ دلی اور تنگ نظری کی مذمت اور سخاوت و فیاضی کو اخلاق کا اعلیٰ ترین مقام عطا کیا گیا۔ جائزطریقے پر مانگے والوں، مسافروں، نادانوں اور محروم رہ جانے والوں کے ساتھ اس طرح حس سلوک کا حکم دیا گیا کہ مال دار مجبوروں کو بھیک سمجھ کر نہ دے بلکہ اس کو ان کا ایک حق سمجھ کر ادا کرے۔ حکومت کے پاس بیت المال میں خمس اور فے کی جو بھی رقم جمع ہوجائے اس کو معاشرہ کے غریب اور بدحال لوگوں کی خوش حالی پر صرف کیا جائے۔ نبی کریم ﷺ کی بیشمار احادیث میں بخل اور کنجوسی کو قابل ملامت اور فیاضی و سخاوت اور معاشرہ کے غریبوں کے لئے فرض شناسی کی عادت کو بہت پسند کیا گیا۔ جو لوگ تنگ دل، تنگ نظر، کم ظرف، دل کے چھوٹے اور زر پرست ہوتے ہیں ان کو معاشرہ کا ایک ایسا کینسر قرار دیا گیا جو آہستہ آہستہ پورے انسانی معاشرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ حضرت جابربند عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا شح (بحل، کنجوس اور کوتاہ نظری) سے بچو کیونکہ اس عادت نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک و برباد کیا ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے خون بہانے ایک دوسرے کی حرمت کو حلال جاننے پر اکسایا۔ ان کو ظلم و زیادتی پر نہ صرف آمادہ کیا بلکہ انہوں نے ظلم و ستم کئے۔ فسق و فجور اور قطع رحمی میں مبتلا ہوئے اور انہوں نے (صلہ رحمی کے بجائے) قطع رحمی کی۔ (مسلم ۔ بہیقی) ۔ نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ ایمان اور شح (بخل، کنجوسی اور زرپرستی) ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ (نسائی۔ بیہقی) ۔ (2) ۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد یہی سارے اختیارات جو مال غنیمت اور مال فے سے متعلق ہیں اور آپ کو پوری طرح حاصل تھے اس کے انتظامی اختیارات خلفاء راشدین اور ان کے بعد آنے والے خلفاء کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ اب جب بھی ایسے حالات پیش آئیں اور مال فے حاصل ہوں تو آپ ﷺ کے خلفاء اپنے اختیارات کو استعمال کریں گے۔ وہ چاہیں تو مال فے کو تمام مسلمانوں کے مفاد میں روک لیں، بیت المال میں جمع رکھیں، کسی کو کچھ دیں یا نہ دیں، عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود جن کاموں سے متعلق ہے اس میں خرچ کردیں اور جیسے حکم دیا گیا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔ مال غنیمت کے خمس اور مال فے کے سورة انفال اور سورة حشر میں پانچ مصرف بیان کئے گئے ہیں۔ رسول، رشتہ دار، یتیم، مسکین اور مسافر۔ خمس میں بھی یہی مصارف ہیں اور مال فے کے بھی۔ بس یہاں یہ فرما دیا گیا کہ مال فے کی تقسیم کا پورا حق صرف رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے۔ آپ ﷺ کے وصال کے بعد اب آپ ﷺ کا حصہ تو ختم ہوچکا ہے کیونکہ یہ آپ ﷺ کا حق تھا آپ ﷺ کی وراثت نہیں تھی کہ جب آپ ﷺ کی اولادوں کی طرف منتقل ہوجاتی۔ اسی نسبت سے ذوی القربی یعنی رشتہ داروں کا حق تھا وہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ البتہ حضور اکرم ﷺ کے رشتہ داروں میں جو ضرورت مند ہیں ان کی ضروریات کو اور لوگوں سے پہلے پورا کیا جانا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی نسبت کی وجہ سے آپ ﷺ کے رشتہ داروں پر زکوٰۃ و صدقات لینا حرام ہے۔ (3) ۔ ان آیات میں تیسرا اصول یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ” رسول تمہیں جو کچھ دیدیں وہ لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے رک جائو “۔ اگرچہ یہ آیت ” مال فے “ کے بیان میں آئی ہے لیکن اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللہ کے حکم سے فرماتے ہیں لہٰذا آپ ﷺ جس چیز اور جس کام کے کرنے کا حکم دیدیں اس کو اسی طرح کیا جائے اور جس سے رکنے کا اشارہ کریں اس سے رک جانا ہی سب سے بڑی سعادت ہے۔ چنانچہ ذخیرہ احادیث کا اگر دیکھا جائے تو اس میں سیکڑوں، ہزاروں ایسی حدیثیں ملیں گی جن میں آپ ﷺ نے امت کو احکامت عطا فرمائے ہیں جن کی تعمیل کرنا اصل دین ہے۔ دراصل جو شخص رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو اہمیت نہ دیتا ہو اور وہ ذخیرہ احادیث جس پر امت کے علماء محدثین، مفسرین اور فقہاء نے بےمثال محنتیں کرکے ہم تک پہنچایا ہے اس کا انکار اور اس کو عجمی سازش قرار دینے والا روح اسلام کا انکار کرنے والا، خود دشمنان اسلام کی سازشوں کا شکار ہے۔
Top