Baseerat-e-Quran - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اور جو مال غنیمت اللہ نے اپنے رسول کو ان (بنو نضیر) سے دلوایا تھا اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اس پر تم نے نہ تو گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
لغات القرآن۔ افائ۔ اس نے لوٹایا۔ اوجفتم۔ تم نے بھگایا۔ تم نے دوڑایا۔ دولۃ۔ مال و دولت۔ نھی۔ منع کردیا۔ تبوئ۔ انہوں نے ٹھکانا بنایا۔ حاجۃ۔ ضرورت۔ یوثرون۔ وہ ترجیح دیتے ہیں۔ خصاصۃ۔ ضروریات زندگی۔ فقر وغربت۔ شح۔ کنجوسی۔ لالچ۔ غلا۔ کینہ۔ بغض۔ تشریح : جنگ میں فتھ کے بعد کفار سے جو مال مجاہدین کے ہاتھ لگتا ہے اگر باقاعدہ جنگ کے ذریعہ حاصل ہو تو اس کو ” مال غنیمت “ اور ” انفال “ کہا جاتا ہے اور بغیر جنگ کے صلح کے ذریعہ مال و دولت ، زمین و جائیداد ہاتھ آتی ہے اس کو ” مال فے “ کہا جاتا ہے۔ مال غنیمت اور مال فے کو کس طرح صرف کیا جائے گا اس کے الگ الگ احکامات ہیں۔ دور جہالت میں عربوں کا دستور یہ تھا کہ جنگ میں جو بھی مال و دولت اور غلام باندیاں ہاتھ لگتی تھیں وہ اس کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں جس نے ان کو اپنے دشمن سے چھینا ہے۔ دین اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں ہر شخص کو اصولوں پر چلنا سکھایا ہے تاکہ ہر شخص کو عدل و انصاف مل سکے اور کسی پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہو۔ اسلام کے ان انقلابی اصولوں نے ہر مومن کو ایک دوسرے سے ہمدردی اور محبت کرنے والا بنادیا۔ سب سے پہلے تو اہل ایمان کو بتایا گیا کہ اصل چیز اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی جان و مال کا ایثار اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ دشمن سے جو مال ملتا ہے وہ ” انفال “ ہے یعنی زائد چیز ہے اس کو اصل نہ سمجھا جائے کیونکہ جب آدمی مال و دولت کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے تو آدمی کی اندرونی کمزوریاں اس کو لالچی، کنجوس، ظالم اور غرور وتکبر کا پیکر بنا دیتی ہیں اس لئے اہل ایمان کے نزدیک اللہ کی راہ میں جان و مال کا نذرانہ پیش کرنا ہی ان کی ساری دولت ہوا کرتی ہے۔ جنگ سے ہاتھ لگنے والے مال کا اصول یہ مقرر فرما دیا گیا ہے کہ جو بھی مال غنیمت ہاتھ لگے اس رسول اللہ ﷺ کے پاس لا کر ڈھیر کردیا جائے چناچہ اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ایک حصہ (خمس) بیت المال میں جمع کرا دیا جاتا جس کی تقسیم کی پوری ذمہ داری اور اختیار رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہوتا تھا تاکہ وہ لوگ جو اس جنگ میں شریک نہیں ہیں یا غریب اور ضرورت مند ہیں وہ بھی محروم نہ رہیں اور باقی مالمجاہدین میں تقسیم کردیا جاتا تھا جو غلام اور باندیاں ہاتھ لگتیں ان کو بھی مجاہدین پر تقسیم کردیا جاتا تھا۔ غزوہ ٔ بنو نضیر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک اور اصول یہ مقرر فرمادیا کہ دشمن سے جو مال و جائیداد بغیر جنگ کے ہاتھ لگے وہ ” مال فے “ ہے جو سب کا سب رسول اللہ ﷺ کے اختیار سے تقسیم ہوگا۔ آپ اس مال و جائیداد کو اپنی مرضی سے عام لوگوں کی مصلحت اور مدد میں خرچ کریں گے۔ چناچہ جب بنو نضیر کے قلعوں اور گڑھیوں کو مجاہدین نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور بنو نضیر کو اندازہ ہوگیا کہ کوئی دوسرا ان کی مدد کے لئے نہیں آئے گا تو وہ صلح پر آمادہ ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ بنو نضیر کے جتنے لوگ ہے وہ ایک ایک اونٹ پر جو کچھ لاد کرلے جاسکتے ہیں لے جائیں۔ یہودیوں نے جو ان سے ممکن ہوسکا انہوں نے ہر چیز کو اپنے اونٹوں پر لادا اور اپنے قلعے، گڑھیاں، گھر بار اور مال و جائیداد مسلمانوں کے حوالے کرکے خیبر اور ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ سب کچھ اس قدر آسانی سے ہوگیا کہ جس کی کسی کو توقع تک نہ تھی۔ اس وقت فے کے احکامات نازل ہوئے جن پر انصار اور مہاجرین نے دل کی خوشی سے عمل کیا اور ایسے زبردست ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا جو رہتی دنیا تک انسانی تاریخ کا سنہری باب سمجھا اور لکھا جائے گا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اے مومنو ! اللہ نے جو مال اپنے رسول کو ان بستی والوں (بنو نضیر) سے دلوایا ہے اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ تم نے اس پر نہ تو گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ (یعنی تم نے کوئی خاص جنگی کاروائی نہیں کی) بلکہ اللہ نے اپنے رسول کو جن پر چاہا مسلط کردیا۔ وہ اللہ ہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے لہٰذا جو مال اللہ نے اپنے رسول کو ” فے “ کے طور پر دلوائے ہیں ان میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ساتھ اس کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ وہ مال (جو معاشرہ کو زندگی دینے کے لئے گھومتے رہنا چاہیے) چند ہاتھوں تک محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک بنیادی اصول زندگی کے ہر معاملے میں متعین فرما دیا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں جو کچھ دیدیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع فرما دیں اس سے رک جائو۔ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ جب وہ کسی کو سزا دینے پر آتا ہے تو سخت اور بھیانک سزا دیا کرتا ہے۔ اللہ نے اس ” مال فے “ میں مہاجر فقراء کی بھرپور مدد کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مال فے میں ان مہاجر فقراء کا بھی حق ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے ہیں جن کی یہ حالت ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے فضل و کرم اور اس کی مکمل رضا و خوشنودی کے طلب گار رہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرکے اپنے ایمان کی سچائی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کے ایثار و قربانی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مال فے کے وہ بھی حق دار ہیں جو ان مہاجرین کے آنے سے پہلے (مدینہ منورہ میں) اپنا ٹھکانا رکھتے تھے۔ جنہوں نے اپنے پر خلوص ایثار و قربانی کے ذریعہ ایک ایسا عظیم مقام حاصل کرلیا ہے کہ وہ ان مہاجرین سے اپنے دلوں میں کوئی خلش اور تنگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنے فقر و فاقہ کے باوجود اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کرنے کو اپنا سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ واقعہ جو لوگ ” شح نفس “ (کنجوسی، بخل، تنگ دلی اور تنگ نظری سے ) بچ گئے حقیقی فلاح اور کامیابی ان ہی کا مقدر ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ بھی مال فے کے مستحق ہیں جو مہاجرین و انصار بعد میں آئیں گے۔ جن کی زبان پی یہی مخلصانہ دعائیہ کلمات ہوتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دیجئے جو ایمان لانے میں ہم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ الٰہی ! ہمارے دلو میں اہل ایمان کے لئے کسی بھی بغض و عداوت کو جگہ نہ دیجئے گا۔ اے ہمارے پروردگار آپ ہی تو ہر طرح کی شفقتیں کرنے والے مہربان ہیں۔ ٭” مال فے “ کے اس عادلانہ نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والے وہ مہاجرین جو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنا سرا گھر بار، رشتہ دار اور کاروبار جائیداد کو چھوڑ کر مدینہ منورہ آگئے تھے۔ انصار مدینہ نے ان کا نہ صرف زبردست، پر خلوص اور گرم جوشی سے اسقبال کیا تھا بلکہ اپنے کاروبار، مال و دولت، کھیتی باڑی میں اپنا حصہ دار بنا لیا تھا۔ انصار نے ان کو اپنے گھروں اور بستیوں میں مہمانوں کی طرح نہیں بلکہ بھائیوں کی طرح آباد کیا۔ انصار کے خلوص کی انتہا یہ تھی کہ کئی کئی انصاری صحابی کسی ایک مہاجر کو اپنے ساتھ رکھنے پر اصرار کرتے تو دوسرا اس سے زیادہ اصرار کرتا تھا یہاں تک کہ بعض مرتبہ قرعہ اندازی سے یہ طے کیا جاتا کہ کون سا مہاجر کس انصاری کے ساتھ رہے گا۔ مہاجرین نے بھی محنت اور مزدوری سے اپنے انصاری بھائیوں کے دلوں میں اور بھی جگہ بنا لی تھی لیکن ان کا حال یہ تھا کہ ان کے پاس نہ تو اپنا ذاتی مکان تھا، نہ جائیداد تھی وہ اپنے انصاری بھائیوں کی جائیداد اور کاروبار میں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ جب بنو نضیر کے مال اور جائیداد کی تقسیم کے لئے ” مال فے “ کے احکامات نازل ہوئے تو آپ نے انصار کے سرداروں اور انصار مدینہ کو مشورہ کے لئے طلب فرمایا۔ آپ ﷺ نے سب انصار مدینہ سے فرمایا کہ بنو نضیر کے مال و جائیداد ہمیں حاصل ہوچکے ہیں اب ان مالوں کو مہاجرین اور انصار میں تقسیم کردیا جائے اور مہاجرین کو اسی طرح آپ کے مکانوں اور جائیدادوں میں محنت مزدوری کے لئے چھوڑد یا جائے ؟ اس سلسلے میں آپ کا کیا مشورہ ہے ؟ یہ سن کر انصار کے دوسردار حضرت سعد ابن عبادہ ؓ اور حضرت سعد ابن معاذ ؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک ہی بات فرمائی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہماری تو یہ رائے ہے کہ یہ سارے مال و جائیداد ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کردیے جائیں اور وہ پھر بھی ہمارے گھروں میں بدستور رہیں۔ ان سرداروں کی باتیں سن کر تمام انصار کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بیک آواز کہا کہ ہم اس فیصلے پر راضی اور خوش ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے انصار مدینہ کے اس عظیم جذبے کو سنا تو بےساختہ ان انصار مدینہ کے لئے بہت سی دعائیں فرمائیں۔ اس فیصلے کے بعد آپ نے صرف دو انصاری صحابہ ؓ حضرت ابو دجانہ ؓ اور حضرت سہل بن حنیف کو اور ایک روایت کے مطابق حضرت حارث ابن الصمہ کو ان کی بےانتہا غربت کی وجہ سے حصہ دیا (ابن ہشام) اور باقی تمام مال کا بڑا حصہ مہاجرین میں تقسیم فرما دیا گیا۔ سورۃ الحشر کی ان آیات ہی میں چند بہت ہی بنیادی باتیں ارشاد فرمادی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے : (1) دین اسلام نے معیشت کے ایسے منصفانہ اصول مقرر فرمائے ہیں جن میں دولت کی تقسیم میں عدل و انصاف کو بنیاد بنایا گیا ہے تاکہ معاشرے کے چند مال داروں اور دولت مندوں میں ساری دولت گھومتی نہ رہے جس سے غریب اور امیر کے دو ایسے طبقے پیدا ہوجائیں جس میں غریب تو اپنی محنت مزدوری کے باوجود اپنے لیے اور اپنے بال بچوں کے لئے راحت کے ہر سامان سے محروم ہر کو روٹی کے دو ٹکڑوں کے لئے ترس جائے اور اس پر زندگی ایک ایسا بوجھ بن جائے جس میں اسے سانس لینا دشوار ہوجائے لیکن دوسری طرف کچھ مال دار معاشرہ کے اس طرح ٹھیکیدار اور اجارہ دار بن جائیں کہ ریاست، سیاست، صحافت، معاشرت، معیشت، تہذیب و تمدن اور مال و دولت کے تمام ذرائع ان کے غلام بن کر رہ جائیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ان کی اجارہ داری سے خالی نہ رہے۔ امیر ہر روز امیر تر بنتا چلا جائے اور غریب ہر روز غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے۔ چونکہ دین اسلام کے اصولوں میں جبر اور زبردستی نہیں ہے اس لئے اس نے ایسے طریقے متعین کردئیے ہیں کہ دولت مندوں کی دولت کا بہائو غریبوں کی طرف اور شہر میں رہنے والے صاحب حیثیت لوگوں کی دولت دیہاتوں کی طرف بہنے لگے چناچہ زکوٰۃ و صدقات کو عبادت کا درجہ دیا گیا اور نفلی صدقات کی جگہ جگہ رغبت دلائی گئی۔ قرض داروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کو سہولتیں دینے کا حکم دیا گیا۔ سود کے لین دین کو قطعی حرام قرار دیا گیا ۔ ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کی گئی۔ مختلف غلطیوں کی معافی کے لئے کفارہ لازم کیا گیا۔ میراث کی تقسیم اور وصیت کے احکامات دئیے گئے تاکہ مرنے والے کا مال اور اس کی دولت و جائیداد زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے۔ بخل، کنجوسی، تنگ دلی اور تنگ نظری کی مذمت اور سخاوت و فیاضی کو اخلاق کا اعلیٰ ترین مقام عطا کیا گیا۔ جائزطریقے پر مانگے والوں، مسافروں، نادانوں اور محروم رہ جانے والوں کے ساتھ اس طرح حس سلوک کا حکم دیا گیا کہ مال دار مجبوروں کو بھیک سمجھ کر نہ دے بلکہ اس کو ان کا ایک حق سمجھ کر ادا کرے۔ حکومت کے پاس بیت المال میں خمس اور فے کی جو بھی رقم جمع ہوجائے اس کو معاشرہ کے غریب اور بدحال لوگوں کی خوش حالی پر صرف کیا جائے۔ نبی کریم ﷺ کی بیشمار احادیث میں بخل اور کنجوسی کو قابل ملامت اور فیاضی و سخاوت اور معاشرہ کے غریبوں کے لئے فرض شناسی کی عادت کو بہت پسند کیا گیا۔ جو لوگ تنگ دل، تنگ نظر، کم ظرف، دل کے چھوٹے اور زر پرست ہوتے ہیں ان کو معاشرہ کا ایک ایسا کینسر قرار دیا گیا جو آہستہ آہستہ پورے انسانی معاشرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ حضرت جابربند عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا شح (بحل، کنجوس اور کوتاہ نظری) سے بچو کیونکہ اس عادت نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک و برباد کیا ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے خون بہانے ایک دوسرے کی حرمت کو حلال جاننے پر اکسایا۔ ان کو ظلم و زیادتی پر نہ صرف آمادہ کیا بلکہ انہوں نے ظلم و ستم کئے۔ فسق و فجور اور قطع رحمی میں مبتلا ہوئے اور انہوں نے (صلہ رحمی کے بجائے) قطع رحمی کی۔ (مسلم ۔ بہیقی) ۔ نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ ایمان اور شح (بخل، کنجوسی اور زرپرستی) ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ (نسائی۔ بیہقی) ۔ (2) ۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد یہی سارے اختیارات جو مال غنیمت اور مال فے سے متعلق ہیں اور آپ کو پوری طرح حاصل تھے اس کے انتظامی اختیارات خلفاء راشدین اور ان کے بعد آنے والے خلفاء کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ اب جب بھی ایسے حالات پیش آئیں اور مال فے حاصل ہوں تو آپ ﷺ کے خلفاء اپنے اختیارات کو استعمال کریں گے۔ وہ چاہیں تو مال فے کو تمام مسلمانوں کے مفاد میں روک لیں، بیت المال میں جمع رکھیں، کسی کو کچھ دیں یا نہ دیں، عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود جن کاموں سے متعلق ہے اس میں خرچ کردیں اور جیسے حکم دیا گیا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔ مال غنیمت کے خمس اور مال فے کے سورة انفال اور سورة حشر میں پانچ مصرف بیان کئے گئے ہیں۔ رسول، رشتہ دار، یتیم، مسکین اور مسافر۔ خمس میں بھی یہی مصارف ہیں اور مال فے کے بھی۔ بس یہاں یہ فرما دیا گیا کہ مال فے کی تقسیم کا پورا حق صرف رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے۔ آپ ﷺ کے وصال کے بعد اب آپ ﷺ کا حصہ تو ختم ہوچکا ہے کیونکہ یہ آپ ﷺ کا حق تھا آپ ﷺ کی وراثت نہیں تھی کہ جب آپ ﷺ کی اولادوں کی طرف منتقل ہوجاتی۔ اسی نسبت سے ذوی القربی یعنی رشتہ داروں کا حق تھا وہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ البتہ حضور اکرم ﷺ کے رشتہ داروں میں جو ضرورت مند ہیں ان کی ضروریات کو اور لوگوں سے پہلے پورا کیا جانا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی نسبت کی وجہ سے آپ ﷺ کے رشتہ داروں پر زکوٰۃ و صدقات لینا حرام ہے۔ (3) ۔ ان آیات میں تیسرا اصول یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ” رسول تمہیں جو کچھ دیدیں وہ لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے رک جائو “۔ اگرچہ یہ آیت ” مال فے “ کے بیان میں آئی ہے لیکن اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللہ کے حکم سے فرماتے ہیں لہٰذا آپ ﷺ جس چیز اور جس کام کے کرنے کا حکم دیدیں اس کو اسی طرح کیا جائے اور جس سے رکنے کا اشارہ کریں اس سے رک جانا ہی سب سے بڑی سعادت ہے۔ چنانچہ ذخیرہ احادیث کا اگر دیکھا جائے تو اس میں سیکڑوں، ہزاروں ایسی حدیثیں ملیں گی جن میں آپ ﷺ نے امت کو احکامت عطا فرمائے ہیں جن کی تعمیل کرنا اصل دین ہے۔ دراصل جو شخص رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو اہمیت نہ دیتا ہو اور وہ ذخیرہ احادیث جس پر امت کے علماء محدثین، مفسرین اور فقہاء نے بےمثال محنتیں کرکے ہم تک پہنچایا ہے اس کا انکار اور اس کو عجمی سازش قرار دینے والا روح اسلام کا انکار کرنے والا، خود دشمنان اسلام کی سازشوں کا شکار ہے۔
Top