Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
نگاہیں اس کو پا نہیں سکتیں مگر وہ نگاہوں کو پالیتا ہے۔ وہ باریک سے باریک شئے کو دیکھتا ہے اور ذرہ ذرہ کی خبر رکھتا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 103 تا 104 : لاتدرک ( نہیں پاسکتی) الابصار (آنکھیں) یدرک ( وہ پالیتا ہے) ‘ بصائر ( بصیرۃ) نشانیاں ‘ عمی ( جو اندھا بن گیا) حفیظ ( نگراں۔ نگہبان۔ دیکھ بھال کرنے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر 103 تا 104 : تمام مخلوق کی نگاہیں مل کر ‘ تمام خوردبین اور دور بین مل کر بھی اگر کوشش کریں تب بھی وہ نظر نہیں آسکتا۔ ” اے برترازگمان و قیاس و خیال و وہم “۔ تمام آنکھوں کی مجموعی طاقتوں سے بھی وہ اتنا عظیم ہے ‘ یا اتنا مخفی ہے ‘ یا اتنا غیر مرئی ہے ‘ یا اتنا غیر محسوس ہے ‘ یا اتنا نزدیک یا دور ہے ‘ یا اتنا بلند ہے یا اتنا عمیق ہے کہ اس کو آنکھیں پا نہیں سکتیں۔ آنکھیں صرف ٹھوس یا سیال یا ایک خاص کیفیت کی اشیاء کو پاسکتی ہیں اور وہ بھی ایک خاص فاصلہ پر۔ نہ بہت زیادہ قریب نہ بہت زیادہ دور اور وہ ان سب حد بندیوں سے ورے ہی ورے ہے۔ یہاں پر لفظ ” ادراک “ بھی آتا ہے۔ یعنی محض دیکھ لینا ہی شرط نہیں ہے بلکہ سمجھ لینا بھی شرط ہے کہ یہ کیا ہے کس حالت میں ہے اس کے نقشے کیا ہیں۔ وہ دیکھنا ہی کیا جس سے پر دئہ دماغ پر تصویر نہ بنے خواہ ہزار مبہم ہی سہی۔ نگاہیں ٹہر نہیں سکتیں ‘ فوکس ڈال نہیں سکتیں گرفت میں لا نہیں سکتیں چونکہ اس کا جسم نہیں ‘ وہ کسی ایک جگہ ٹھہرا ہوا یا چلتا ہوا نہیں ‘ وہ محدود نہیں۔ اور جب بصارت اس کے آگے ہار ہار جاتی ہے تو ادراک ‘ اس کو دیکھنا اور آنکھوں کی طاقت سے سمجھنا ناممکن ہے۔ بے شک قیامت کے دن اللہ نظر آئے گا مگر صرف اس کا ایک خفیف رخ۔ اس وقت بھی ساری مخلوقات کی نگاہیں مل کر اس کا سراپا نہیں دیکھ سکتیں۔ اس کے جمال و جلال کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ صرف ایک جلوہ نظر آئے گا۔ دنیا میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک ہی تجلی میں بیہوش ہو کر گرپڑے تھے۔ آخرت میں لوگ بےہوش نہ ہوں گے چونکہ انہیں اتنی طاقت عطا کی جائے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر دنیا جہان کے سار انسان اور جنات اور فرشتے اور شیطان جب سے پیدا ہوئے اور جب تک پیدا ہوتے رہیں گے ۔ وہ سب کے سب مل کر ایک صف میں کھڑے ہوجائیں تو سب مل کر بھی اس کی ذات کا احاطہ اپنی نگاہوں سے نہیں کرسکتے (روایت ابو سعید خدری ؓ خالق کی ذات وصفات لامحدود ہیں۔ مخلوقات کی بصارت ‘ بصیرت ‘ حواس اور قوت ادراک سب محدود ہیں۔ بھلا محدود میں لامحدود کیوں کر سما سکتا ہے۔ تمام عقلا ‘ علماء اور صوفیا کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ اس فانی زندگی میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ و ادراک ناممکن ہے۔ جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو جواب ملا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا تو پھر ہم جیسوں کی کیا مجال ہے۔ رسول کریم ﷺ کو معراج کے موقع پر جو زیارت نصیب ہوئی اس کا تعلق اس دنیا سے نہ تھا۔ اور ہمارا ذہن و فکر اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ آپ نے اللہ کے نور کا کس حد تک مشاہدہ فرمایا۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ” نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں “ اس کا تعلق صرف اسی دنیا سے ہے۔ کیونکہ خود قرآن ایک جگہ کہتا ہے “ قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے “۔ یہ بشارت صرف اہل ایمان کے لئے ہے۔ کیونکہ قرآن ایک جگہ کہتا ہے ” کفار اس دن اپنے رب کی زیارت سے محروم ہوں گے “۔ مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی زیارت عرصہ محشر میں بھی ہوگی اور جنت پہنچ کر وہاں بھی۔ اہل جنت کے لئے ساری نعمتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔ صحیح مسلم میں حضرت صہیب ؓ کی روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اہل ایمان جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جو نعمتیں تمہیں جنت میں مل چکی ہیں ان سے زائد اور کچھ چاہیے تو بتائو کہ ہم وہ بھی دیدیں۔ یہ لوگ عرض کریں گے یا اللہ آپ نے ہمیں دوزخ سے نجات دی ‘ جنت میں داخل فرمایا اس سے زیادہ ہم اور کیا چاہ سکتے ہیں۔ اس وقت حجاب درمیان سے اٹھا دیا جائے گا اور سب کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی۔ اور یہ نعمت جنت کی تمام دوسری نعمتوں سے بڑھ کر ہوگی “۔ صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضور پر نور ﷺ ایک رات چاندنی میں اپنے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے چاند کی طرف نظر کی اور فرمایا تم اپنے رب کو اسی طرح کھلی آنکھوں سے دیکھو گے جس طرح اس وقت اس چاند کو دیکھ رہے ہو “۔ حضرت ابن عمر ؓ کی ایک روایت ترمذی اور مسند احمد میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جنت میں خاص درجہ عطا فرمائے گا ان کو ہر صبح و شام دیدار الٰہی نصیب ہوگا۔ مختصر یہ کہ اس دنیا میں اللہ کا نظارا ناممکن ہے۔ آخرت میں بھی اتناہی کچھ نظر آئے گا جتنی اجازت ہوگی۔ بصارت اور قوت ادراک دونوں اجازت کی حد سے ایک قدم آگے نہ بڑھ سکیں گی۔
Top