Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا : سو تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو بِاٰيٰتِهٖ : اس کی نشانیوں پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو اس ذبیحہ میں سے کھائو جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے
لغات القرآن : آیت نمبر 118 تا 121 : الا تاکلوا ( یہ کہ تم کیوں نہیں کھاتے ؟ ) ذکراسم اللہ ( اللہ کا نام لیا گیا ہے) اضطررتم ( تم مجبور ہو جائو۔ مجبور کردیئے گئے) ‘ المعتدین (زیادتی کرنے والے) ذروا ( چھوڑ دو ) ظاھرالاثم ( ظاہری گناہ۔ کھلا ہوا گناہض سیجزون ( جلدہی بدلہ دیئے جائیں گے) فسق (گناہ) لیجادلو (تاکہ وہ جھگڑا کریں) تشریح : آیت نمبر 118 تا 121 : حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ عرب کے جہلا کو اسلام کے خلاف بھڑکانے کے لئے علمائے یہود جس قسم کے سوالات سکھایا کرتے تھے ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ واہ واہ یہ کیا بات ہے جس جانور کو اللہ ماردے وہ تو حرام ہوجائے اور جس جانور کو انسان ذبح کر دے وہ حلال ہوجائے۔ بعض صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ شبہ عرض کیا جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان لوگوں کی باتوں کا نوٹس نہ لیجئے جو علم و عقل نہیں رکھتے ‘ محض نفسانی خواہشات کے پیچھے خود بھی بہک رہے ہیں اور اہل ایمان کو بھی بہکانے کی کوشش کررہے ہیں آپ کا رب ان حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ یہ جو مومنوں سے فرمایا ہے کہ تم ظاہری گناہ اور باطنی گناہ دونوں سے بچنے کی کوشش کرو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں میں آکر کیں تم خود ہی مرتد نہ ہوجانا یا خلوص قلب کو مجروح نہ کرلینا۔ فرمایا ہے کہ ان لوگوں کا ‘ ان شیاطین جن و انس کا ہتھکنڈا یی ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں جو مومن بن چکے ہیں یا مومن بننے والے ہیں وسوسے ڈالیں اور شکوک و شبہات پیدا کریں تاکہ وہ انہیں بحث میں الجھا کر ان کی راہ کھوٹی کردیں۔ سخت تنبیہ کے ساتھ فرمایا ہے کہ جو اہل ایمان ان مشرکوں کے دام فریب میں آگئے ان کا شمار مشرکوں ہی میں ہوگا۔ بات صاف صاف ہے۔ جو حکم قرآن و حدیث (وحی جلی یا وحی خفی) میں آگیا وہ اٹل ہے ‘ وہ واجب العمیل ہے ‘ اس کی اطاعت جنت ہے ‘ عدم اطاعت جہنم ہے۔ حلال و حرام گوشت کا حکم اس سے پہلے سورة مائدہ میں بھی آچکا ہے۔ حرام کے حلال ہونے پر حالت اضطرار میں جو چھوٹ دی گئی ہے اس کا ذکر بھی سورة مائدہ میں آچکا ہے۔ اس کے بعد کسی کو اس مسئلہ پر عقل کے گھوڑے دوڑانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایمان یقین کامل کا نام ہے خواہ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ ہاں اگر یقین کامل کے ساتھ جستجوئے حق ہے ‘ تو ان کے اس سوال کی طرف توجہ کی جائے گی مگر یہ ضروری نہیں ہے۔ حرام میں وہ جانور شامل ہے جو ذبح کے بغیر قتل کیا گیا ہو یا جس کے ذبح پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو (یعنی مسنونہ کلمات نہ پڑھے گئے ہوں) ذبح کا تعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل کے واقعہ قربانی سے ہے۔ مسنونہ کلمات کے ذریعہ ذبح کرنے والا اللہ سے معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جان پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کرے گا اور یہ جانور کی قربانی بطور نشانی ہے۔ مسنونہ کلمات کا جان بوجھ کر نہ پڑھنا گویا یہ معاہدہ نہ کرنا ہے۔ بغیر معاہدہ یہ گوشت حرام ہے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی (رح) کے نزدیک اگر مسنونہ کلمات (بسم اللہ الرحمن الرحیم) یا اللہ اکبر سہواً چھوٹ جائیں تو ذبیحہ حلال ہے۔ اگر جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے تو حرام ہے۔ ( شرط یہ ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو) اسلام ظاہر اور باطن دونوں پر زور دیتا ہے ۔ صرف ظاہر یا صرف باطن دونوں غلط البتہ جہاں انسانی آنکھیں باطن کو نہیں دیکھ سکتی ہیں تو ظاہر کافی ہے۔ باطن کا معاملہ اللہ جانتا ہے یہاں قربانی پر ظاہراً کلمات مسنونہ پڑھنا کافی ہے۔
Top